بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ریا کی وجہ سے اعمال ضائع ہونے کا تفصیلی حکم


سوال

کسی عمل میں ریاکاری کا خیال آنے سے پورا عمل ضائع ہوجاتا ہے یا صرف وہ جزء جس میں ریاکاری کا خیال پیدا ہو؟

جواب

ریاکاری کے باعث عمل ضائع ہونے کی تفصیل ذکر کرنے سے قبل ریا کاری کی اقسام اور عبادات کی اقسام  ذکر کی جاتی ہیں، بعد ازاں ان کی روشنی میں ریاکاری کی وجہ سے عمل ضائع ہونے کی تفصیل واضح ہو جائے گی۔

عبادات کی دو قسمیں ہیں:

(1) عبادات غیر متجزئہ: یعنی وہ عبادات جو اول تا آخر تمام اجزاء مل کر ایک ہی عبادت سمجھی جاتی ہو،اس کا شرعی وجود تمام اجزاء کے وجود پر مبنی ہونے کی بنا پر ہر جزء دیگر اجزاء کا محتاج ہو،  جیسے نماز، روزہ، حج وغیرہ، مثلا نماز تکبیرِ تحریمہ سے لے کر سلام تک تمام اجزاء قیام، قراءت، رکوع، سجدے، قعدہ وغیرہ مل کر ایک ہی عبادت ہے، جب تک اس کے تمام اجزاء شریعت کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق وجود پذیر نہ ہوں تب تک نماز نماز نہیں بنتی۔

(2) عبادات متجزئہ: وہ عبادات جن کا ہر جزء مستقل حیثیت رکھتا ہو، کوئی جزء اپنے شرعی وجود میں دوسرے کا محتاج نہ ہو، جیسے صدقہ، تلاوتِ کلامِ پاک وغیرہ، مثلا صدقہ کرتے ہوئے اگر کوئی بندہ سو روپیہ صدقہ کرے، اس کے بعد پھر سو روپیہ صدقہ کرے تو ان میں سے ہر سو روپیہ الگ الگ مستقل صدقہ ہے، ایک کا وجودِ شرعی دوسرے کے وجود پر موقوف نہیں ہے۔

ریاکاری کی اولا دو قسمیں ہیں:

(1 ) بعد الفراغ عن العمل: عمل کرکے فارغ ہوجانے کے بعد عمل کی تشہیر کرکے ریا کاری کرنا۔

(2) قبل الفراغ عن العمل:عمل پورا کرنے سے پہلے ریا کا خیال آنا، خواہ عمل کے دوران ہو یا شروع کرتے وقت ہو۔

اس دوسری قسم کی پھر دو قسمیں ہیں:

(1) ریاءِ محض: یعنی خالص غیر اللہ کو دیکھانے کی نیت سے عمل کرنا، مثلا ایک باپ اپنے بیٹے سے کہہ دے کہ آپ نے اگر فرض نماز پڑھ لی تو میں آپ کو ہزار روپیہ دوں گا، پھر اس بیٹے نے ہزار روپیہ کے حصول کے لیے فرض نماز پڑھ لی، اگر اس کو ہزار روپیہ نہ ملتا تو نہ پڑھتا، اس صورت میں عمل کرتے ہوئے نیت ہی غیر اللہ کو دیکھانے کی ہوتی ہے، امرِ خداوندی کی تعمیل کا اس میں کوئی تصور نہیں ہوتا۔

(2) ریاءِ تخلیط:اطاعتِ خداوندی  کی نیت کے ساتھ ساتھ غیر اللہ کو دیکھانا بھی ملحوظ ہو، مثلاً ایک بندہ نماز پڑھ رہا ہو اور اتنے میں کچھ لوگ آجائیں تو وہ اپنی نماز  لمبی کرکے تمام تر آداب کی رعایت کرتے ہوئے آہستہ آہستہ ادا کرے صرف اس وجہ سے تاکہ یہ لوگ دیکھ کر نیک سمجھیں، اس کی چار قسمیں ہیں:

(۱) اطاعت اور ریاء دونوں عمل کرنے کابذاتہ باعث ہوں، یعنی اطاعتِ امرِ الہی اور ریاکاری دونوں مستقلا مقصود ہوں۔

(۲) دونوں مجموعی طور پر عمل کرنے کا باعث بن جائیں، ہر ایک الگ الگ بذاتہ مقصود نہ ہو۔

(۳) عمل کا باعث مستقل طور پر ریا کاری ہو، البتہ اس میں اطاعت کی نیت بھی خلط ہوجائے۔

(۴) عمل کا باعث اور عمل سے مقصود مستقل طور پر اطاعتِ خداوندی ہو، البتہ اس میں ریاکاری کا بھی شائبہ آجائے۔

اس مختصر سی تمہیدے کے بعد سوال کا  جواب یہ ہے کہ ریاکاری اگر عمل سے فارغ ہونے کے بعد  کی جائے تو اس سے عمل پر کوئی اثر نہیں پڑتا البتہ اس ریاکاری پر الگ سے مؤاخذہ ہوگا الا یہ کہ توبہ کرکے من جانب اللہ درگزر کا معاملہ ہو، عمل سے فارغ ہونے سے پہلے اگر ریاءِ محض کا ارتکاب کیا جائے تو اس سے عمل باطل ہوجاتا ہے، پھر اگر عمل عبادات غیر متجزئہ کے قبیل سے ہو تو کل کا کل عمل باطل ہوجاتا ہے، فرض یا واجب ہو تو اس کا اعادہ بھی ضروری ہوتا ہے، اور اگر عمل عبادات متجزئہ کے قبیل سے ہو تو عمل کے جس حصے میں ریاکاری ہو وہی جزء باطل ہوجاتا ہے، دیگر اجزاء پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔

اگر ریاءِ تخلیط ہو تو اس کی پہلی قسم میں فرائض و واجبات کا وجوب تو ذمے سے ساقط ہوجائے گا، البتہ بقدرِ ریا اس کا ثواب حبط ہوجائے گا، دوسری اور تیسری صورت میں عمل بھی باطل ہوجاتا ہے حتی کہ اگر فرائض و واجبات میں سے ہو تو اس کا اعادہ بھی ضروری ہوگا، اور چوتھی صورت میں عمل تو باطل نہیں ہوگا البتہ ریا کا شائبہ ہونے کی وجہ سے ثواب میں کمی آجائے گی۔

واضح رہے کہ ریاءِ تخلیط کی جن صورتوں میں ثواب حبط (ضائع) ہوجاتا ہے ان میں بھی وہی مذکورہ بالا تفصیل ہے کہ اگر وہ عمل عباداتِ غیر متجزئہ کے قبیل سے ہو تو کل کا کل ضائع ہوجائے گا، اور اگر عباداتِ متجزئہ کے قبیل سے ہو تو جس حصہ میں ریا کاری پائی گئی وہ ضائع ہوجائے گا جس جزء میں ریا نہ ہو وہ ضائع  نہ ہوگا۔

صاحب’’الطريقة المحمدية‘‘علامہ تقی الدین الحنفی رحمہ اللہ ’’رسالة انقاذ الهالكين‘‘  میں لکھتے ہیں:

"اعلم أن الرياء حرام قطعي بلا خلاف، يستحق فاعله العذاب بالنار، وتكلموا في تأثيره في العمل بإبطاله وإحباط أجره.

والقول  الفصل  فيه أن الرياء إن وقع بعد العمل، بأن أظهره وحدث به إرادة نفع الدنيا، فهذا مخوف، وما رويناه عن أبي الدرداء ثانيا في المبحث الأول يدل على أنه محبط، لكن قال الغزالي: الأقيس أنه مثاب على عمله الذي قد مضى، ومعاقب على مراءاته بطاعة الله تعالى بعد الفراغ منه، فلا يحبط الرياء الواقع بعد انتهاءالعمل أجره ، إذ لا إحباط بالمعصية عند أهل السنة لقوله تعالى: (فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره) ، وقوله تعالى: (إن الله لا يظلم مثقال ذرة) .

وإن وقع في العمل ففيه تفصيل: فذلك أن الرياء قسمان: رياء محض، ورياء تخليط، والأول يبطل العمل بالكلية، حتى لا يستحق ثوابا أصلا، ويلزم إعادته إن كان واجبا، لانعدام النية، سواء عقد العمل مع الرياء، أو ورد في أثناءه، إن كان عبادة لا تتجزئ، مثل الصلاة والصوم والحج.

وإن كان متجزء، كالقراءة والصدقة، فالخالي صحيح، والمقارن فاسد، مثال الأول من صلى الفرض لرؤية الناس، أو لقول أبيه أو سيده مثلا، إن صليت فرضا أعطيك درهما، ولو لم يره، أو لم يقل أحد لم يصل.

ومثال الثاني أن يصلي ركعتين، فحضر ملك من الملوك وهو يشتهي أن ينظر إليه ولولا الناس لقطع الصلاة فأتمها خوفا من مذمة الناس.

والثاني لا يخلو إما أن يكون كل واحد منهما مستقلا بالبعث على العمل، أو لا يكون واحد منهما مستقلا، وإنما يحصل الانبعاث بمجموعهما، أو يكون الرياء مستقلا دون نية التقرب أو على العكس.

والأول تردد فيه الغزالي لتعارض الأدلة ، والذي عندي كونه مسقطا  للواجب لوجود  النية، والثاني مبطل، كالرياء المحض لعدم نية التقرب، إذ معناها كونها باعثة، وجزء الباعث ليس بباعث، والثالث أولى بالإبطال، والرابع لا يبطل لكن ينقص ثوابه."

(القسم الثاني، مقدمة، المقالة الثانية في الرياء و مايتعلق به، المبحث الثالث في حكم الرياء و مايلحق به، ص:59، ط:القدس فلسطين)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144404100489

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں