بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رائیونڈ مرکز میں بغیر لاؤڈ اسپیکر کے بغیر نماز


سوال

 رائیونڈ  میں بغیر اسپیکر  کے جہری نمازیں پڑھائی جاتی ہیں اور اسپیکر کے ساتھ اقامت کی جاتی ہے، مسئلے کی رو  سے کہا جاتا  ہے کہ اسپیکر میں اس  لیے نماز نہیں پڑھاتے کہ وہ اصل آ وازنہیں ہوتی، بلکہ نقل آ واز ہوتی ہے، تو اب آ یا کہ جو نماز کے  لیے تکبیر کہی جاتی ہے  وہ  لاؤ ڈ اسپیکر پر بولی جاتی ہے،  اس مسئلے کے بارے میں بہت سے لوگوں میں تشویش پائی جاتی ہے، شرعی اعتبار سے  جہری نمازوں میں "فاستمعوا"  کی رو  سے مقتدیوں کے  لیے امام کی قراءت کا پہنچنا یعنی مقتدیوں کا سننا واجب ،سنت،یا مستحب ہے؟

جواب

اسپیکر پر نماز پڑھانا ضرورت کے مواقع پر  ( مثلاً: نمازیوں کی کثرت اور نمازیوں تک امام کی آواز نہ پہنچنے  کی بناپر) جمہور علماء کے نزدیک بلا کراہت جائز ہے، اسپیکر کی ایجاد کے ابتدائی دور  میں اہلِ علم کی آراء  نماز میں اس کے  استعمال کے حوالے سے مختلف تھیں کہ آیا اس کی آواز کی بنیاد پر مقتدی کی نماز درست ہوگی یا نہیں؟ اور اس اختلاف کا منشا یہ تھا  کہ خود سائنس دانوں کا اس نکتے پر اختلاف تھا کہ آیا اسپیکر سے سنائی دینے والی آواز قائل کی اصل آواز ہی ہے یا اس کی صدائے بازگشت؟ دونوں آراء تھیں، نتیجتاً اہلِ علم میں بھی دونوں آراء سامنے آئیں، اور اسی بنا پر  ابتدا میں بعض اہلِ علم نے احتیاطاً فرض نماز میں اس کے استعمال کو منع کیا۔

لیکن بعد میں تقریباً تمام اہلِ علم اس کے استعمال کے جواز پر متفق ہوگئے، تبلیغ سے وابستہ بزرگان وعلماء بھی  لاؤڈ اسپیکر میں نماز کے جواز کے قائل ہیں، باقی ان کا نماز کے دوران لاؤڈ اسپیکر استعمال نہ کرنا عدمِ جواز  کی بنیاد پر نہیں، بلکہ مرکز کے بعض بزرگوں نے  خاص ذوق کی بنا پر اس سلسلے کو دو وجہ سے برقرار رکھا ہے:

1۔ جب بعض اکابر علماء نے نماز میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال سے احتیاطاً منع کیا تھا اور وہ اسی رائے کے ساتھ دنیا سے تشریف لے گئے، تو آج بھی احتیاط پر عمل کرتے ہوئے اس کا استعمال کم سے کم کیا جائے، لہٰذا نماز میں چوں کہ اقتدا کی صحت وعدمِ صحت کا مسئلہ ہے، اس لیے  نماز بغیر اسپیکر  کے پڑھائی جائے، جب کہ اذان و اقامت میں چوں کہ ایسی کوئی وجہ نہیں  اس لیے وہ اسپیکر پر دی جاتی ہیں۔

2۔ قرونِ اولیٰ میں جب مجمع زیادہ ہوتاتھا تو نماز میں مکبرین کے ذریعے آواز پہنچائی جاتی تھی، نماز جیسی عظیم عبادت کی ادائیگی کی ایک مثالی صورت جو قرونِ اولیٰ میں مکبرین کا نظم قائم کرکے اختیار کی گئی، اس ترقی یافتہ دور میں قرونِ اولیٰ کی اس سنت کا اِحیاء اور نئی نسل کو سادہ انداز میں نماز کے ان احکامات کا عملی صورت میں مشاہدہ کرواکر علم منتقل کرنا اس کا ایک مقصد ہے، اگر تبلیغ سے وابستہ حضرات بھی یہ سلسلہ ختم کردیں تو شاید دورِ جدید میں دورِ قدیم کی اس سنت کی کوئی صورت باقی نہ رہے، نیز بزرگانِ تبلیغ نماز  میں بھی لاؤڈ اسپیکر کے جواز کے قائل ہیں؛ اسی لیے بعض اوقات مجمع بہت زیادہ ہونے پر بوقتِ ضرورت لاؤڈ اسپیکر کا استعمال مشاہدے میں آجاتاہے

باقی "فاستمعوا "کی رو سے  امام کی اقتدا میں ہوتے ہوئے خاموشی کا حکم ہے، چاہے امام جہری نماز میں ہو یا سری نماز میں، اسی طرح خواہ امام کی آواز پہنچ رہی ہو یا نہ پہنچ رہی ہو، جیساکہ محققین نے فرمایا ہے کہ اس آیت کا تعلق صرف جہری نماز سے نہیں ہے، بلکہ سری نماز سے بھی ہے، نیز لاؤڈ اسپیکر کی ایجاد سے پہلے بھی لاکھوں کے مجمعے حج وغیرہ کے مواقع پر  باجماعت نماز ادا کرتے آئے ہیں، اس وقت بھی اس آیت"فاستمعوا له" پر عمل پایا جاتاتھا، اسی طرح آج بھی آواز نہ آئے تو بھی اس آیت کی خلاف ورزی نہیں پائی جائے گی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 200088

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں