بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

روایتی بینکوں میں کرنٹ اکاؤنٹ کھلوانا


سوال

روایتی بینک کے کرنٹ اکاؤنٹ میں رقم رکھوانا کیسا ہے جب کہ اسلامی بینکاری موجود ہو؟

جواب

واضح رہے کہ مال کی حفاظت کی اگر کوئی معتمد صورت نہ ہو تو بینک کے کرنٹ اکاؤنٹ میں حفاظت کی غرض سے مال رکھوانے کی گنجائش ہے، البتہ اگر کوئی متبادل صورت ہو تو پھر بینک کے کرنٹ اکاؤنٹ میں بھی رقم رکھوانے سے اجتناب کرنا چاہیے؛ کیوں کہ کرنٹ اکاؤنٹ میں رقم رکھوانے والا اگرچہ عملی طور پر کسی قسم کا سودی معاہدہ نہیں کرتا، لیکن بینک اس کی رکھوائی گئی رقم سودی معاملات میں استعمال کرلیتا ہے، اور مال رکھوانے والا نہ چاہتے ہوئے بھی سودی لین دین کا کسی نہ کسی درجہ میں حصہ بن جاتا ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مال کی حفاظت کی کوئی متبادل صورت موجود نہ ہو تو کسی بھی بینک (بشمول مروجہ اسلامی  بینکوں ) میں مجبوراً  کرنٹ اکاؤنٹ کھلوانے کی گنجائش ہے اور جو بینک اس کے مال کو سودی معاملہ میں استعمال کرے گا تو اس کا گناہ متعلقہ ذمہ داران کو ہوگا، نہ کہ اکاؤنٹ ہولڈر کو۔ اور اگر مجبوری کی صورت نہ ہو تو اجتناب ہی بہتر ہے۔

کفایت المفتی میں ہے:

’’حفاظت کی معتمد صورت نہ ہو تو بینک میں جمع کرادینا مباح ہے۔‘‘

  (ج:7، ص:102، ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101676

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں