بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

روایتی سودی بینکوں میں کرنٹ اکاؤنٹ کھلوانے کا حکم


سوال

کیا روایتی سودی بینکوں میں کرنٹ اکاؤنٹ کھلوانا جائز ہے؟

جواب

بہتر تو یہی ہے کہ اگر ضرورت نہ ہو تو کرنٹ اکاؤنٹ بھی نہ کھلوایا جائے؛ کیوں کہ اس اکاؤنٹ میں جمع شدہ رقم بھی بینک اپنے سودی معاملات میں استعمال کرتاہے،  لیکن اگر بینک میں اکاؤنٹ کھلوانے کی ضرورت ہو تو کسی بھی بینک میں کرنٹ اکاؤنٹ کھلوانے کی گنجائش ہے؛ کیوں کہ کرنٹ اکاؤنٹ ہولڈر  حفاظت وغیرہ کی غرض سے اس اکاؤنٹ میں رقم رکھواتے ہیں اور اس رقم رکھوانے پر بینک اکاؤنٹ ہولڈر کو کوئی نفع یا سودی رقم ادا نہیں کرتا ہے، اس وجہ سے ضرورت کے وقت روایتی سودی بینک میں بھی کرنٹ اکاؤنٹ کھول کر اس میں رقم رکھوانے کی گنجائش ہے اور بینک اس سے جو سودی کام کرے گا اس کا گناہ متعلقہ ذمہ داران کو ہوگا، نہ کہ اکاؤنٹ ہولڈر کو۔ رقم کی حفاظت کی  دوسری صورت یہ ہےکہ بینک کا لاکر خرید کر اپنی رقم وغیرہ محفوظ کرلی جائے، یہ صورت سب سے بہتر ہے اس لیے کہ اس صورت میں بینک آپ کی رقم سودی معاملات میں استعمال نہیں کرسکے گا۔ فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144204200390

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں