بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

روایت: ’’مروا أولادكم بالصلاة وهم أبناء سبع ... إلخ‘‘ کی روشنی میں چند سوالات


سوال

َدرج ذیل  حدیث کے ہر ہر حصے کی مثالوں کے ذریعے  آسان سادہ سی اردو  میں وضاحت کردیں:

"عنْ عبدِ اللهِ بنِ عمروِ بنِ العاصِ -رضي الله عنهما- أنّ النّبِيَّ -صلّى الله عليه وسلّم- قالَ: مُرُوْا أوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أبناءُ سَبْعِ سِنِيْنَ، وَاضْرِبُوْهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ، وَفَرِّقُوْا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ". رَواهُ أحمدُ وأبو داودَ، وهُو صحيحٌ".

۱۔مُرُوْا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلاَةِ وَهُمْ أبْنَاءُ سَبْعِ سِنِيْنَ:سات سال کا بچہ مراہق ہے یا نہیں ؟ اور اس عمر میں والدین اور اساتذہ کے لیے اُسے مارپٹائی   کرنا  درست ہے یا نہیں؟

۲۔وَاضْرِبُوْهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ:دس سال کا بچہ مراہق ہے یا نہیں ؟ اور  اس عمر میں والدین اور اساتذہ کے لیے اُسے مارپٹائی کرنا  درست ہے یا نہیں؟

۳۔ وَفَرِّقُوْا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ:بستروں  میں ’’تفریق ‘‘سے کیا مراد ہے؟ کیا امی ابو ،بچے کو سُلا کر دوسرے بستر کو جائیں؟ اور ایک ہی بستر میں سونا ممنوع ہے یا نہیں ؟

جواب

سوال میں  روایت :"مُرُوْا أوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أبناءُ سَبْعِ سِنِيْنَ، وَاضْرِبُوْهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ، وَفَرِّقُوْا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ"کی روشنی میں جو سوالات کیے گئے ہیں، اُ ن تمام سوالات کے جوابات  حسبِ ترتیب  درج ذیل ہیں:

۱۔۲۔واضح رہے کہ لڑکے   کی بلوغت کی ابتدائی عمر بارہ سال ہے،  اور لڑکی کی بلوغت کی ابتدائی عمر نو سال ہے،  اگر لڑکے کی عمر بارہ سال ہوجائے اور وہ بالغ نہ ہوا ہو  تو اُسے ’’مراہق ‘‘ کہا جاتا ہے،  اسی طرح اگر لڑکی کی عمر  نو سال ہوجائے اور وہ بالغ نہ ہوئی ہو تو اُسے ’’مراہقہ‘‘ کہا جاتا ہے، لہذا   سات سال کا لڑکا  اور لڑکی، اور دس سال کا  لڑکا ’’مراہق‘‘ نہیں ہیں، البتہ دس سال کی لڑکی ’’مراہقہ‘‘ ہے۔

 باقی والدین اور اساتذہ کے لیے  سات سال، یادس سال کی عمر کے بچے کو مار نا درست  ہے یا نہیں؟ تو  اس بارے میں  واضح رہے کہ  اولاً   تو والدین اور اساتذہ  کو بچوں کی تعلیم وتربیت کے مراحل میں نرمی اور محبت کا انداز اختیار کرنا چاہیے، بے جا مار پیٹ   سے بچے  ضدی اور ڈھیٹ ہوجاتے ہیں،پھر اًن پر کسی بات کا اثر نہیں ہوتا،  اور زیادہ مارنا اور سختی کرنا  تعلیم وتربیت کے لیے مفید بھی نہیں، بلکہ نقصان دہ ہے،  اس سے  بچہ کے  اعضاءکم زور ہوجاتے ہیں، نیز جب پٹتے پٹتے عادی ہوجاتے ہیں  تو بے حیا  بن جاتے ہیں،  پھرمار  کا اُن پرکچھ اثر بھی نہیں ہوتا، اور اس کے مقابلے میں نرمی اور محبت  اور بسا اوقات حوصلہ افزائی  کا طریقہ زیادہ مفید ہے۔

اگر ضرورت کے وقت سزا دینے کی نوبت آئے تو بچہ بالغ ہو یا نابالغ،اُسے تنبیہ کی غرض سےسزا بھی دی جاسکتی ہے، بلکہ  تادیب کی خاطر سرزنش کا ثبوت ،شریعت سے بھی ثابت ہے،  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا  فرمان  ہے :’’ جب تمہارے  بچے سات سال کے ہوجائیں تو اُن کو نماز پڑھنے  کا حکم  کرو، اور جب  وہ دس سال کے ہوجائیں تو اُنہیں نماز نہ پڑھنے پر مارو‘‘، اس لیے  اگر کبھی  والدین یا اساتذہ کے لیے ایسی صورتِ حال پیش آئے کہ بچہ کو سزا دینا ناگزیر ہوتو وہ تدریجاً سزا دیں۔ مثلاً: ۱۔ بچے کو ملامت کریں۔ ۲۔ڈانٹ ڈپٹ کریں۔۳۔معمولی کان کھینچ لیں۔۴۔ہاتھ سے ماردیں،وغیرہ۔

اگر   تعلیم وتربیت کی غرض سے  کبھی سزا دینے کی ضرورت   پڑ جائے تو اُس کے لیےوالدین اور اساتذہ کو   درج ذیل شرائط کی رعایت کرنا ضروری ہے:

۱۔اساتذہ نے  بچوں کے والدین سے اس کی اجازت لی ہو۔

  ۲۔سزا سے مقصود تنبیہ و تربیت ہو، غصہ یا انتقام کے جذبہ کی تسکین نہ ہو۔

۳۔ ایسی سزا شرعاً ممنوع نہ ہو۔ (نمبر:(۹)، (۱۰) اور (۱۱) میں اس کی  وضاحت آرہی ہے)۔

۴۔ غصہ کی حالت میں نہ مارا جائے، بلکہ جب غصہ اُتر جائے تو مصنوعی غصہ کرتے ہوئے سزا دیں۔

۵۔ بچے کی طبیعت اس کی متحمل ہو، یعنی بچے کو اُس کی برداشت سے زیادہ نہ ماریں۔

۶۔  مدرسہ کے ضابطہ کی رو سے اساتذہ کو اس طرح کی تادیب کی اجازت ہو۔

۷۔ ہاتھ سے ماریں، لاٹھی ، ڈنڈا، کوڑے وغیرہ سے نہ ماریں، اگر بچہ بالغ ہو تو بقدرِ ضرورت لکڑی سے بھی مار سکتے ہیں  بشرطیکہ برداشت سے زیادہ نہ ہو۔

۸۔ ایک وقت میں تین سے زیادہ ضربات نہ ماریں، اور نہ ہی ایک جگہ پر تینوں ضربات ماریں، بلکہ تین ضربات متفرق جگہوں پر ماریں۔

۹۔ سر، چہرے اور ستر کے حصے پر نہ ماریں۔

۱۰۔     بچہ تادیب کے قابل ہو، اتنا چھوٹا بچہ جو تادیب کے قابل نہ ہو اُس کو مارناجائز نہیں ہے۔

۱۱۔    ایسی سزا  جس سے ہڈی ٹوٹ جائے ،یا جلد پھٹ جائے، یا جسم پر سیاہ داغ پڑجائے، یا  دل پر اُس کا اثر ہو ، شرعاً جائز نہیں ہے۔   

 ۳۔  شارحین ِ حدیث اور فقہاء کرام رحمہم اللہ  کی  بیان کردہ تفصیل کے مطابق نبی کریم صلی اللہ کے ارشاد (تمہارے بچے سات سال کے ہوجائیں تو اُنہیں نماز  پڑھنے کا حکم  دو، اور جب وہ   دس سال کے ہوجائیں تو نماز ( چھوڑنے ) پر اُنہیں مارو، اور اُن کے بستر الگ کردو)  میں ’’تفریق‘‘ سے  مراد  یہ ہے کہ  جب بچے  دس سال  کے ہوجائیں تو بہن بھائیوں    کے بستر وں کو علیحدہ  کردینا چاہیے اور اُنہیں علیحدہ علیحدہ سلانا چاہیے ،  اسی طرح  اگر کوئی بچہ  یابچی  والدین کے ساتھ    ایک ہی بستر میں  سو رہا ہو اور وہ دس سال  کا ہوجائے تو اُس کا  بستر بھی والدین سے علیحدہ  کردینا چاہیے اور اُُسے علیحدہ سلانا چاہیے،   اس  تفصیل سے سوال میں  پوچھی گئی صورت کا حکم معلوم ہو گیا  کہ  والدین کو چاہیے کہ وہ دس سال کے بچہ یا بچی   کو علیحدہ بستر میں سلائیں ، اُسے والدین کے ساتھ ایک ہی بستر میں نہیں سو نا چاہیے۔

"رد المحتارعلى الدر المختار"میں ہے:

"فَتحصّلَ مِنْ هَذا أنّه لَا بُدَّ في كُلٍّ مِنْهُما مِنْ سِنِّ المراهقةِ، وأقلُّه لِلأنْثَى تِسْعٌ، ولِلذّكرِ اثنا عشرَ؛ لِأنّ ذلكَ أقلُّ مُدّةٍ يُمْكِنُ فِيْهَا البلوغُ، كَما صرّحُوا بِه في بابِ بلوغِ الغُلامِ، وهَذا يُوافِقُ مَا مرّ مِنْ أنّ العلّةَ هِي الوطْءُ الّذِيْ يكونُ سبباً للِولدِ أوِ المسُّ الّذِيْ يكونُ سبباً لِهَذا الوطْءِ، ولَا يخفَى أنّ غيرَ المراهقِ مِنْهُما لَا يتأتّى مِنْهُ الولدُ".

(رد المحتار، كتاب النكاح، فصل في المحرمات، 3/35، ط: سعيد)

"مجلة الأحكام العدلية"میں ہے:

"مَبْدأُ سِنِّ البُلوغِ في الرّجلِ اثْنَتَا عشرةَ سنةً، وفي المرأةِ تِسْعُ سنواتٍ، ومُنْتهاهُ في كِلَيْهِمَا خمسَ عشرةَ سنةً. وإذَا أكملَ الرّجلُ اثْنَتَيْ عشرةَ سنةً ولَمْ يَبْلُغْ يُقالُ لهُ "المًرَاهِقُ "، وإذَا أكملتِ المرأةُ تِسْعاً ولَمْ تَبْلُغْ يُقالُ لَها " المُرَاهِقةُ " إلَى أنْ يبلُغا".

(مجلة الأحكام العدلية، المادة:986، ط: نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي)

"سنن أبي داود" میں ہے:

"عنْ عمرو بنِ شُعيبٍ عنْ أبيهِ عنْ جدِّه، قالَ: قالَ رسولُ اللهِ -صلّى الله عليه وسلّم-:"مُرُوْا أوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أبناءُ سَبْعِ سِنِيْنَ، وَاضْرِبُوْهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ، وَفَرِّقُوْا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ".

(سنن أبي داود، كتاب الصلاة، باب متى يؤمر  الغلام بالصلاة، 1/133، رقم:495، ط: المكتبة العصرية، صيدا - بيروت)

وفيه أيضاً:

"عنْ أبِيْ هُريرةَ-رضي الله عنه- عنِ النّبِيِّ -صلّى الله عليه وسلّم- قالَ: إذَا ضربَ أحدُكم فَلْيَتَّقِ الوجهَ".

(سنن أبي داود، كتاب الحدود، باب في ضرب الوجه في الحدود، 4/167، رقم:4493، ط: المكتبة العصرية، صيدا - بيروت)

"الدر المختار مع رد المحتار"میں ہے:

"(وإنْ وجبَ ضرْبُ ابنِ عشرٍ علَيْها بِيدٍ لَا بِخشبةٍ) لحديث: "مُرُوْا أوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أبناءُ سَبْعِ سِنِيْنَ، وَاضْرِبُوْهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ" ...  (قولُه: بِيدٍ) أيْ: ولَا يُجاوِزُ الثّلاثَ، وكذلكَ المعلّمُ ليسَ لهُ أنْ يُجاوِزَها، قال - عليه الصّلاةُ والسّلامُ - لِمرداسٍ المعلّمِ:"إيّاكَ أنْ تضرِبَ فوقَ الثّلاثِ؛ فإنّكَ إذَا ضربتَ فوقَ الثّلاثِ اقتصَّ اللهُ مِنْكَ» اهـ إسماعيلُ عنْ أحكامِ الصِّغار لِلأستروشنِيِّ، وظاهرُه أنّه لَا يُضْرَبُ بِالعصا في غيرِ الصّلاة أيضاً (قولُه: لَا بِخشبةٍ) أيْ: عصاً، ومُقْتَضَى قولِه: "بِيدٍ" أنْ يُرادَ بِالخشبة مَا هُو الأعمُّ مِنْهَا ومِنَ السَّوطِ، أفادَه ط. (قولُه: لِحديثِ ... إلخ) استدلالٌ علَى الضّربِ المطلقِ، وأمّا كونُه لَا بِخشبةٍ فَلِأنّ الضّربَ بِها وردَ في جِنايةِ المكلَّفِ. اهـ. ح".

(الدر المختار مع رد المحتار، كتاب الصلاة، 1/352، ط:سعيد)

"رد المحتار" میں ہے:

"لَا يجوزُ ضَرْبُ ولدِ الحُرِّ بِأمرِ أبيهِ، أمّا المعلّمُ فَلهُ ضَرْبُه؛ لِأنّ المأمورَ يضرِبُه نيابةً عنِ الأبِ لِمصلحتِه، والمعلّمُ يضرِبُه بِحكمِ الملكِ بِتمليكِ أبيهِ لِمصلحةِ التّعليمِ، وقيّدهُ الطَّرَسُوْسِيُّ بِأنْ يكونَ بِغيرِ آلةٍ جارِحةٍ، وبِأنْ لَا يزيدَ علَى ثلاثٍ ضَرَبَاتٍ".

(رد المحتار، كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، 6/430، ط: سعيد)

"الدر المختار مع رد المحتار"میں ہے:

"لَوْ ضربَ المعلِّمُ الصَّبِيَّ ضرباً فاحشاً) فَإنّه يُعزِّرُه ويضمنُه لَوْ ماتَ، شُمُنِّيٌّ ... (قولُه: ضرباً فاحشاً) قيّد بِه؛ لِأنّه ليسَ لهُ أنْ يضرِبَها في التّأديبِ ضرباً فاحشاً، وهُو الّذِيْ يَكْسِرُ العظمَ، أوْ يخرِقُ الجلدَ، أوْ يُسوِّدُه، كَما في التَّتارخانيّة. قالَ في البحرِ: وصرّحُوا بِأنّه إذَا ضربَها بغيرِ حقٍّ وجبَ عَلَيْهِ التّعزيرُ اهـ أيْ: وإنْ لَمْ يكنْ فاحشاً".

(الدر المختار مع رد المحتار، كتاب الحدود، باب التعزير، 4/79، ط: سعيد)

"الموسوعة الفقهية الكويتية" میں ہے:

"لِلمعلِّمِ ضَرْبُ الصّبِيِّ الّذِيْ يتعلّمُ عِنْدَهُ للِتأديبِ. وبِتتبّعِ عباراتِ الفقهاءِ يتبيّنُ أنّهم يُقيِّدُوْن حقّ المعلِّمِ في ضَرْبِ الصّبِيِّ المتعلِّمِ بِقيودٍ، مِنْها :

أ - أنْ يكونَ الضّرْبُ مُعتاداً لِلتعليمِ كمّاً وكيفاً ومحلّاً، يعلمُ المعلِّمُ الأمْنَ مِنْهُ ، ويكونُ ضَْرْبُه بِاليدِ لَا بِالعصا، وليسَ لهُ أنْ يُجاوِزَ الثّلاثِ، رُوِي أنّ النّبِيَّ -عليه الصّلاةُ والسّلامُ- قالَ لمِرداسٍ المعلِّمِ -رضي الله عنه- : إيّاكَ أنْ تضرِبَ فوقَ الثّلاثِ؛ فإنّكَ إذَا ضربتَ فوقَ الثّلاثِ اقتصَّ اللهُ مِنْكَ.

ب - أنْ يكونَ الضَّرْبُ بِإذنِ الولِيِّ ، لِأنّ الضّرْبَ عِنْدَ التّعليمِ غيرُ مُتعارَفٍ، وإنّما الضَّرْبُ عِنْدَ سُوءِ الأدبِ، فَلَا يكونُ ذلكَ مِنَ التّعليمِ في شيءٍ، وتسليمُ الولِيِّ صَبِيَّهُ إلَى المعلِّمِ لِتعليمِه لَا يُثْبِتُ الإذنَ في الضَّرْبِ، فَلِهذَا ليسَ لهُ الضَّرْبُ، إلّا أنْ يأذنَ لهُ فيهِ نصّاً. ونُقِلَ عنْ بعضِ الشّافعيّة قولُهم: الإجماعُ الفعلِيُّ مُطّرِدٌ بِجوازِ ذلكَ بِدونِ إذنِ الوِليِّ.

ج - أنْ يكونَ الصّبِيُّ يعقِلُ التّأديبَ، فَليسَ لِلمعلِّمِ ضَرْبُ مَنْ لَا يعقِلُ التّأديبَ مِنَ الصِّبْيَانِ، قالَ الأثرمُ: سُئِلَ أحمدُ عنْ ضَرْبِ المعلّمِ الصِّبْيَانَ، قالَ: علَى قدرِ ذنوبِهم، ويتوقّى بِجهدِه الضَّرْبَ وإذَا كانَ صغيراً لَا يعقِلُ فَلَا يضرِبُه".

 (الموسوعة الفقهية الكويتية، حرف التاء، تعليم و تعلم، الضرب للتعليم، ج:13، ص: 13-14، ط: وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية - الكويت)

"شرح سنن أبي داود لابن رسلان"میں ہے:

"(وفرِّقُوْا بينَهم في المضاجعِ) أيْ: بينَ الذّكورِ، وأمّا التّفريقُ بينَ الذّكرِ والأُنْثَى فَهُو أولَى، والمرادُ بِالتّفريقِ أنْ يُعْزَلَ فِراشُ أحدِهما عنِ الآخرِ".

(شرح سنن أبي داود لابن رسلان، كتاب الصلاة، باب متى يؤمر الغلام بالصلاة،  3/364، ط: دار الفلاح- جمهورية مصر العربية)

"الدر المختار مع رد المحتار"میں ہے:

"وإذا بلغَ الصّبِيُّ أو الصّبِيّةُ عشرَ سِنِيْنَ يجبُ التّفريقُ بينَهما بينَ أخيهِ وأختهِ وأمِّهِ وأبيهِ في المضجعِ؛ لِقولِه - عليه الصّلاةُ والسّلامُ-: "وفرِّقُوْا بينَهم في المضاجعِ وهُم أبناءُ عشر» ..(قولُه: بينَ أخيهِ وأختهِ وأمِّهِ وأبيهِ) ...  قالَ في الشِّرْعةِ: ويُفرَّقُ بينَ الصِّبيانِ في المضاجعِ إذَا بلغُوا عشرَ سِنِيْنَ، ويحولُ بينَ ذُكورِ الصِّبيانِ والنِّسوانِ، وبين الصِّبيانِ والرِّجالِ، فإنّ ذلكَ داعيةٌ إلَى الفتنةِ، ولَوْ بعدَ حينٍ اهـ . وفي البزّازيّةِ: إذَا بلغَ الصّبِيُّ عشراً لَا ينامُ معَ أمِّهِ وأختهِ وامرأةٍ إلّا بِامرأتِه أوْ جاريتِه اهـ .  فَالمرادُ التّفريقُ بينَهما عِنْدَ النّومِ خوفاً مِنَ الوقوعِ في المحذورِ، فإنّ الولدَ إذَا بلغَ عشراً عقلَ الجِماعَ، ولَا دِيانةَ لهُ تردُّه فَرُبّما وقعَ علَى أختهِ أو أمِّهِ، فإنّ النّومَ وقتُ راحةِ مُهيِّجٌ لِلشّهوةِ، وترتفعُ فيهِ الثِّيابُ عنِ العورةِ مِنَ الفريقينِ فَيُؤدِّيْ إلَى المحظُورِ وإلَى المُضاجعة المُحرَّمةِ، خُصوصاً في أبناءِ هَذا الزّمانِ، فَإِنّهم يَعْرِفُوْن الفِسْقَ أكثرَ مِنَ الكبارِ.

وأمّا قولُه: "وأمِّهِ وأبيهِ" فَالظّاهرُ أنّ المرادَ تفريقُه عنْ أمِّهِ وأبيهِ بِأنْ لَا يتركاهُ ينامُ معهُما في فراشِهما؛ لِأنّه رُبّما يطّلعُ علَى مَا يقعُ بينَهما، بِخلافِ مَا إذَا كانَ نائماً وحدَه، أوْ معَ أبيهِ وحدَه، أوِ البِنْتُ معَ أمِّها وحدَها،وكَذا لَا يُتركُ الصّبِيُّ ينامُ معَ رجلٍ أوِ امرأة أجْنَبِيَّيْنِ خوفاً مِن الفتنةِ، ولَا سِيَّما إذَا كانَ صبيحاً، فإنّه وإنْ لَمْ يحصلْ في تِلْكَ النّومةِ شيءٌ فيتعلّقُ بِه قلبُ الرّجلِ أوِ المرأةِ فَتحصلُ الفتنةُ بعدَ حِيْنٍ، فَلِلهِ درُّ هَذا الشّرعِ الطّاهرِ فقد حسمَ مادّةَ الفسادِ، ومَنْ لَمْ يُحَطْ في الأمورِ يقعْ في المحذُورِ، وفي المثلِ: لَا تسلمُ الجرّةُ في كُلِّ مرّةٍ".

(الدر المختار مع رد المحتار، كتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغيره، 6/382، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144603102162

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں