درج ذیل حدیث کے ترجمہ ، حوالہ ، سند اور تشریح کے متعلق رہنمائی کیجیے:
"عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَوْ كَانَتِ الدُّنْيَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللهِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ مَا سَقَى كَافِرًا مِنْهَا شَرْبَةَ مَاءٍ".
۱۔سوال میں جس روایت کے الفاظ ذکر کرکے اس کے متعلق دریافت کیا گیا ہے، یہ روایت"سنن الترمذي"، "سنن ابن ماجه"، "شعب الإيمان"ودیگر کتب ِ احادیث میں مذکور ہے۔"سنن الترمذي"میں اس روایت کے الفاظ درج ذیل ہیں:
"حدّثنا قُتيبة، قال: حدّثنا عبد الحميد بنُ سليمان عن أبِيْ حازمٍ عن سهل بن سعدٍ -رضي الله عنه- قال: قال رسولُ الله صلّى الله عليه وسلّم: لَوْ كانتِ الدُّنيا تَعْدِلُ عندَ اللهِ جناحَ بعوضةٍ مَا سقَى كافِراً منها شَرْبَةَ ماءٍ".
(سنن الترمذي، أبواب الزهد، باب ما جاء في هوان الدنيا على الله عز وجل، 4/560، رقم:2320، ط: مصطفى البابي الحلبي-مصر)
ترجمہ:
’’(حضرت) سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: گر اللہ تعالی کے نزدیک دنیا کی حیثیت مچھر کے پَر کے برابر ہوتی تو اللہ تعالی کسی کافر کو اس میں سے ایک گھونٹ پانی نہ پلاتے ‘‘۔
۲۔ ملا علی قاری رحمہ اللہ"مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح"میں مذکورہ روایت کی تشریح میں لکھتے ہیں:
"(لَوْ كانتِ الدُّنيا تَعْدِلُ) : بِفتحِ التاءِ وكسرِ الدّالِ، أيْ: تَزِنُ وتُساوِيْ (عندَ اللهِ جناحَ بعوضةٍ) أيْ: ريشةُ ناموسةٍ، وهُو مثلٌ لِلقِلّةِ والحقارةِ، وَالمعنَى أنّه لَوْ كانَ لَها أدنَى قدرٍ (مَا سقَى كافِراً) أي: مِنْ مِياهِ الدّنيا ( شَرْبَةَ ماءٍ) أيْ: يمنعُ الكافرَ مِنْها أدنَى تمتُّعٍ، فإنّ الكافرِ عدوُّ اللهِ، والعدوُّ لا يُعطَي شيئاً ممّا له قدرٌ عندَ المُعْطِيْ. فمِنْ حَقارتِها عندَه لا يُعطِيها لِأَوليائِه، كما أشار إليه حديثُ: "إنّ اللهَ يَحْمِيْ عبدَه المُؤْمنَ عنِ الدّنيا، كما يَحْمِيْ أحدُكم المريضَ عنِ الماءِ" ... ومِنْ دناءتِها لَديهِ أنْ يُكْثِرها على الكفّارِ والفجّارِ، بَلْ قالَ تَعالَى: {وَلَوْلَا أَنْ يَكُونَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً لَجَعَلْنَا لِمَنْ يَكْفُرُ بِالرَّحْمَنِ لِبُيُوتِهِمْ سُقُفًا مِنْ فَضَّةٍ} [الزخرف: 33] الآيةَ. وقال - صلّى الله عليه وسلّم - لِعُمرَ: " أمَا تَرْضَى أنْ يكونَ لَهم الدّنيا ولَنا الآخِرةَ".
(مرقاة المفاتيح، كتاب الرقاق، 8/3241، رقم:5177، ط: دار الفكر- بيروت)
ترجمہ:
’’یعنی اگر دنیا اللہ تعالی کےہاں مچھر کے پَر کے مساوی اور برابر ہوتی۔"جناحَ بعوضةٍ"یعنی مچھر کا پَر، اوریہ قلت اور حقارت کی مثال ہے،مراد یہ ہے کہ اگر اس (دنیا) کی ( اللہ تعالی کے ہاں) معمولی قدر بھی ہوتی توکسی کافر کو دنیاکے کسی سمندر سے ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتے، یعنی اللہ تعالی اس دنیا سے کافر کو معمولی فائدہ اٹھانے بھی نہ دیتے؛ اس لیے کہ کافر اللہ تعالی کا دشمن ہے، اور دشمن کو ایسی چیز نہیں دی جاتی جس چیز کی دینے والے کے ہاں کوئی قدر ہو۔ اللہ تعالی کے ہاں دنیا کی حقارت میں سے یہ ہے کہ وہ اپنے اولیاء کو یہ دنیا نہیں دیتے ، جیساکہ حدیث:"إنّ اللهَ يَحْمِيْ عبدَه المُؤْمنَ عنِ الدّنيا، كما يَحْمِيْ أحدُكم المريضَ عنِ الماءِ"میں اس کی طرف اشارہ ہے(یعنی بلاشبہ اللہ تعالی اپنے مومن بندے کو دنیا سے ایسے بچاتے ہیں جیسے تم میں سے کوئی اپنے بیمار کو پانی سے بچاتا ہے)۔۔۔ اور اللہ تعالی کے ہاں اس دنیا کے گھٹیا پن میں سےیہ ہے کہ وہ کفاروفجار کو یہ دنیا بہت دیتے ہیں، بلکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:"{وَلَوْلَا أَنْ يَكُونَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً لَجَعَلْنَا لِمَنْ يَكْفُرُ بِالرَّحْمَنِ لِبُيُوتِهِمْ سُقُفًا مِنْ فَضَّةٍ} [الزخرف: 33] (ترجمہ:اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تمام آدمی ایک ہی طریقے کے ہوجاویں گے تو جولوگ خدا کے ساتھ کفر کرتے ہیں ہم اُن کے لیے اُن کے گھروں کی چھتیں چاندی کی کردیتے (بیان القرآن) نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (حضرت) عمر (رضی اللہ عنہ ) سے فرمایا:"أمَا تَرْضَى أنْ يكونَ لَهم الدّنيا و لَنا الآخِرةَ"(یعنی کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں کہ ان کفار کے لیے دنیا ہو اور ہمارے لیے آخرت ہو)‘‘۔
۳۔امام ترمذی رحمہ اللہ مذکورہ روایت کا حکم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"هَذا حديثٌ صحيحٌ، غريبٌ مِنْ هَذا الوجهِ."
(المصدر السابق)
ترجمہ:
’’یہ حدیث صحیح (اور) اس طریق سے غریب ہے(یعنی حدیث کے مذکورہ الفاظ صرف اسی سند میں مذکور ہیں، البتہ اس کے ہم معنی الفاظ دیگر احادیث میں موجود ہیں جن سے اس کے معنی کی تائید ہوتی ہے)‘‘۔
خلاصہ یہ کہ مذکورہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح اور اس طریق سے غریب ہے، اور اس کے ہم معنی الفاظ دیگر احادیث میں موجود ہیں جن سے اس کے معنی کی تائید ہوتی ہے، لہذا اسے بیان کیا جاسکتا ہے۔
"شرح علل الترمذي لابن رجب"میں ہے:
"... وعلى هذا فلا يُشكل قوله: "حديثٌ حسنٌ غريبٌ"، ولا قوله: "صحيحٌ حسنٌ غريبٌ لا نعرفُه إلاّ مِن هذا الوجه"، لأنّ مُراده أنّ هذا اللفظ لا يُعرف إلاّ من هذا الوجه، لكن لِمعناه شواهدُ مِن غير هذا الوجه، وإنْ كانتْ شواهدُ بغير لفظِه. وهذا كما في حديث: "الأعمالُ بالبينات"، فإنّ شواهدَه كثيرةٌ جداً في السنّة، مما يدلُّ على أنّ المقاصد والنيّات هي المؤثّرةُ في الأعمال، وأنّ الجزاء يقعُ على العمل بِحسب ما نُوي به، وإنْ لم يكن لفظُ حديثِ عُمر مرويّاً ِمن غير حديثه مِن وجه يصحُّ".
(شرح علل الترمذي، الباب الأول، القسم الثالث، معنى الحسن عند الترمذي، 2/607، ط: مكتبة المنار، الزرقاء- الأردن)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144601100474
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن