بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

روایت:’’خبردار! جس نے کسی ذمی کو، جو اللہ اور اس کے رسول کے ذمہ میں تھا، نا حق قتل کیا ۔۔۔الخ‘‘ کی تخریج وتحقیق


سوال

کیا درج ذیل حدیث"السنن الكبرى للبيهقي" میں موجود ہے؟ رہنمائی فرمائیں:

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم نے ارشاد فرمایا: خبردار! جس نے کسی ذمی کو ،جو اللہ اور اس کے رسول کے ذمہ میں تھا، نا حق قتل کیا اللہ تعالی اس پر جنت کی خوشبو حرام فرما دیں گے، حالاں کہ جنت کی خوشبو ستر(۷۰) سال کی مسافت سے بھی سونگھی جاسکتی ہے‘‘۔

جواب

سوال میں آپ نے جس حدیث کے متعلق دریافت کیا ہے، یہ "سنن الترمذي"، "سنن ابن ماجه"، "السنن الكبرى للبيهقي"ودیگر کتبِ احادیث میں الفاظ کےمعمولی فرق کے ساتھ مذکور ہے۔"السنن الكبرى للبيهقي"میں اس حدیث کے مکمل  الفاظ درج ذیل ہیں:

"أخبرنا أبو بكر أحمد بن الحسن القاضي وأبو زكريا بن أبي إسحاق المزكّي قالا: ثنا أبو العبّاس محمّد بن يعقوب، أنبأ محمّد بن عبد الله بن عبد الحكم، أنبأ ابن وهبٍ، أخبرني أبو صخر المدني أنّ صفوان بن سُليمٍ أخبره عن ثلاثين من أبناء أصحاب رسول الله ۔صلّى الله عليه وسلّم۔ عن آبائهم دِنيةً عن رسول الله -صلّى الله عليه وسلّم- قال: ألا! مَن ظلم مُعاهَداً وانتقصَه وكلَّفه فَوق طَاقتِه، أو أخذَ مِنهُ شيئاً ِبغير طِيبِ نَفسٍ مِنهُ فَأنا حَجيجُه يَومَ القيامة. وأشار رسول الله -صلّى الله عليه وسلّم- بِأصبعِه إلى صَدرِه: ألا ومَن قتل مُعاهَداً له ذمّةُ الله وذمّةُ رسولِه حَرّم اللهُ عليه رِيحَ الجنّة، وإنّ رِيحَها لَتُوجد مِن مَسِيرة سبعين خريفاً".

(السنن الكبرى، كتاب الجزية،  باب لايأخذ المسلمون من ثمار أهل الذمة ... إلخ،  9/344، رقم:18731، ط: دار الكتب العلمية-بيروت)

ترجمہ:

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:خبردار!جس نے کسی معاہد( چاہےذمی ہویاغیرذمی ) پر ظلم کیا اور  اس کے( حقوق میں) کمی کی اور اس پر اس  کی طاقت واستطاعت سے زیادہ بار ڈالا( جیسے کسی ذمی سے اس کی  حیثیت واستطاعت سے زیادہ جزیہ لیا)،یا اس کی دلی خوشی ورضامندی کے بغیر اس سے کوئی چیز لےلی تو قیامت کے دن میں اس   کی طرف سے جھگڑنے والا  ہوں   گا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی مبارک سے اپنے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کیا(اور فرمایا): خبردار! جس نے کسی ایسے معاہد (چاہے ذمی ہو یا غیرذمی )کو (ناحق ) قتل کیا جسے اللہ اور اس کے رسول نے پناہ دے رکھی ہو تو اللہ تعالی اس پر جنت کی خوشبو حرام کردیں گے، حالاں کہ بلاشبہ  جنت کی خوشبو ستر(۷۰) سال کی مسافت سےآتي ہے‘‘۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ"موافقة الخبر الخبر في تخريج أحاديث المختصر"میں مذکورہ حدیث ذکرکرنے کے بعد اس کا حکم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"هَذا حَديثٌ حَسنٌ ... رِجالُه ثقاتٌ، ولا يَضرُّ الجهلُ بِحال الأبناء المذكورين؛ فإنّ كثرتَهم تَجبرُ ذَلك، واللهُ أعلم".

(موافقة الخبر الخر، المجلس الثامن والستون بعد المائة، 2/184، ط: مكتبة الرشد للنشر والتوزيع-الرياض)

ترجمہ:

’’یہ حدیث(سند کے اعتبارسے) ’’حسن ‘‘ہے۔۔۔اس کے تمام روات ’’ثقہ‘‘ ہیں،(حدیث کی سند میں) مذکور(صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے) صاحبزادوں   کی حالت کا مجہول  ہونا( اس کے لیے) مضر نہیں ہے،کیوں کہ  ان کی تعداد کی کثرت اس (مجہول ہونے ) کی تلافی کردیتی ہے، واللہ اعلم‘‘۔

خلاصہ یہ کہ مذکورہ حدیث  کے تمام روات ثقہ ہیں، اوریہ حدیث سند کے اعتبار سے ’’حسن ‘‘ ہے  اور قابلٍِ بیان ہے۔

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144502100090

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں