بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

روایت:’’جومیرے دیے ہوئے پر راضی نہ ہو ... اس کو چاہیے کہ میرے سوا کسی اور کو رب بنالے‘‘ کی تحقیق


سوال

ّحدیث کا مفہوم  ہے:’’ جو میرے دیے ہوئے پر راضی نہ ہو ،جو میری مصیبتوں پر صبر نہ کرے  اس کو چاہیے کہ  میرے سوا کسی اَور کو  رب بنا لے‘‘۔

جواب

سوال میں آپ نے جو الفاظ ذکر کیےہیں ،بعینہ یہی الفاظ تو حدیث میں نہیں ، البتہ اس کے قریب قریب الفاظ مذکور ہیں، جنہیں امام طبرانی رحمہ اللہ نے"المعجم الكبير"میں حضرت ابو ہندالداری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ۔حضرت ابو ہند الداری رضی اللہ عنہ فرماتےہیں :میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:جو میرے فیصلہ پرراضی نہ ہو اورمیری آزمائشوں (مصیبتوں ) پر صبر نہ کرے(یعنی اُنہیں برداشت نہ کرے) اُسے چاہیے کہ  وہ میرے علاوہ کسی اور رب کو تلاش کرلے۔

حافظ  سخاوی رحمہ اللہ "الأجوبة المرضية فيما سئل السخاوي عنه من الأحاديث النبوية"  میں لکھتےہیں:(مذکورہ حدیث کی سند میں)فاید اور اُن کے بیٹے (زیاد) ضعیف ہیں،تاہم اس حدیث کےلیے (دو) شاہد موجود ہیں:

پہلا شاہد:

حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، جسے (امام) طبرانی (رحمہ اللہ) نے"العجم الأوسط"میں دو طرق سے نقل کیا ہے،مرفوع(طریق،یعنی جسے براہِ راست نبی کریم صلی اللہ سے روایت کیا ہے)کے الفاظ یہ ہیں:’’جو اللہ  تعالی کے فیصلہ پر راضی نہ ہواور اللہ  تعالی کی تقدیرپرایمان نہ لائے تواسے چاہیے کہ وہ اللہ  تعالی کے علاوہ کسی اور کو معبود تلاش کرلے‘‘۔

دوسرا شاہد:

(فقیہ) ابواللیث سمرقندی رحمہ اللہ حضرت  ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کرتےہیں:’’سب سےپہلی چیز جواللہ تعالی نے  لوحِ محفوظ میں  لکھی، یہ ہے: میں  اللہ ہوں،میرے سوا کوئی معبود نہیں،محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) میرے رسول ہیں۔جو میرے فیصلہ  کےتابع ہوجائے(یعنی  اُس کے آگے جھک  جائے)، میری آزمائشوں(مصیبتوں) پر صبر کرے(یعنی اُنہیں برداشت کرے)اور میری نعمتوں پر شکراداکرےتو میں اُسے ’’صدیق‘‘ لکھ دیتاہوں او رقیامت کے دن اُسے ’’صدیقین ‘‘کے ساتھ جنت میں بھیجوں گا۔جومیرےفیصلہ کےتابع نہ ہو(یعنی  اُس کے آگے نہ جھکے)،میری آزمائشوں (مصیبتوں)پر صبرنہ کرے(یعنی اُنہیں برداشت نہ کرے)تو اُسے چاہیےکہ وہ میرے علاوہ کسی اورکو رَب بنالے‘‘۔

 مذکورہ دو شواہد کی بنا پر اس روایت کو بیان کیا جا سکتا ہے۔ 

"المعجم الكبير للطبراني"میں ہے:

"حدّثنا يحيى بنُ عبد الباقي المِصِّيصي، حدّثني سعيدُ بن زياد، حدّثني أبي زيادِ بن فائدٍ عن أبيه فائدِ بن زيادٍ عن جدّه زيادِ بن أبي هندٍ عن أبي هندِ الداريِّ قال: سمعتُ رسول الله -صلّى الله عليه وسلّم- يقول: قال الله -تبارك وتعالى: مَن لم يرضَ بقضائي ويصبرْ على بلائي فليلتمِسْ رباً سِواي".

(المعجم الكبير للطبراني، باب الياء، من يكني أباهند، 22/320، ط:مكتبة ابن تيمية- القاهرة)

"الأجوبة المرضيه فيما سئل السخاوي عنه من الأحاديث النبوية"میں ہے:

"السادسُ عشر: الحديث القدسيُّ الذي رُوي: "من لم يرضَ بقضائي وقدْري فليلتمسْ له رباً غيري" مِن أيِّ روايةٍ ومِن أيِّ كتابٍ من الكتب المعتمدة؟

أخرجه الطبرانيُّ وأبو نعيم وغيرُهما من رواية زِياد بن فايد بن زِيادٍ عن أبيه عن جدّه زِياد بن أبي هند الداريِّ عن أبي هندٍ -رضي الله عنه- سمعتُ رسول الله -صلّى الله عليه وسلّم- يقول-يَعنيْ عن ربّه -عزّ وجلّ- قال: مَن لم يرضَ بقضائي ولم يصبرْ على بلائي فليلتمسْ رباً سِواي.

وزيادٌ هو وجدُّه معاً بزاي منقوطة ثمّ تحتانية مشدّدة، وفايدٌ: بالفاء،وهو وولدُه ضعيفان.

وله شاهدٌ مِن حديث أنس، أخرجه الطبرانيُّ في الأوسط مِن وجهين، مرفوعاً بلفظ: مَن لم يرضَ بِقضاء الله ويؤمنْ بِقدْر الله فليلتمسْ إِلهاً غيرَ الله.

ولأبي الليث السمرقنديِّ عن ابن عباسٍ أنّه قال: أوّلُ شيءٍ كتبه الله في اللوح المحفوظ: إنّي أنا الله، لا إلهَ إلاّ أنا، محمدٌ رَسوليْ، مَن استسلم لِقضائي، وصبرَ على بلائي، وشكرَ نعمائي كتبتُه ِصدِّيقاً، وبعثتُه يوم القيامة مع الصِّدِّيقين إلى الجنة، ومَن لم يستسلمْ لِقضائي، ولم يصبرْ على بلائي ولم يشكرْ نعمائي فليتَّخذْ رباً سِواي".

(الأجوبة المرضية فيما سئل  السخاوي عنه من الأحاديث النبوية، ج:3، ص:948-949، رقم:270، ط:دار الراية للنشر والتوزيع)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144202200620

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں