بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

روایت: ’’جو بندہ فرض نماز پڑھے اور اس کے بعد دل سے دعا کرے تو اس کی دعا قبول ہوگی۔۔۔الخ‘‘ کی تخریج


سوال

 کیا درج ذیل حدیث، احادیث کی کتابوں میں موجود ہے ؟رہنمائی فرمائیں:

۱۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم نے ارشاد فرمایا: جو بندہ فرض نماز پڑھے اور اس کے بعد دل سے دعا کرے تو اس کی دعا قبول ہوگی، اسی طرح جو آدمی قرآنِ مجید ختم کرے اور دعا کرے تو اس کی دعا بھی قبول ہوگی۔

جواب

سوال میں آپ نےجس حدیث کے متعلق دریافت کیا ہے،یہ حدیث "المعجم الكبير للطبراني"، "الجامع الصغير من حديث البشير والنذير"، "مجمع الزوائد ومنبع الفوائد"، "نتائج الأفكار لابن حجر"ودیگر کتبِ احادیث میں مذکور ہے۔"المعجم الكبير للطبراني"کی حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں:

"حدّثنا الفضلُ بنُ هارون البغداديُّ، ثنا إسماعيلُ بن إبراهيم الترجمانيُّ، ثنا عبد الحميدُ بن سليمان عن أبي حازمٍ عن العِرباض بن سارِيةَ قال: قال رسول الله -صلّى الله عليه وسلّم-: مَن صلّى صلاةَ فَريضةٍ فَله دَعوةٌ مستجابةٌ، ومَن خَتم القرآنَ فَله دَعوةٌ مُستجابةٌ".

(المعجم الكبير، باب العين،  18/259، رقم: 647، ط: مكتبة ابن تيمية-القاهرة)

ترجمہ:

’’حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جوشخص فرض نماز پڑھے(اور اس کے بعد دعاء کرے)تو اس کی دعاء ضرور قبول ہوگی،اورجو شخص قرآنِ کریم ختم کرے(اوراس کے بعد دعاء کرے) تو اس کی دعاء بھی ضرور قبول ہوگی‘‘۔

حافظ نور الدین ہیثمی رحمہ اللہ "مجمع الزوائد ومنبع الفوائد"میں مذکور ہ حدیث  ذکرکرنے کے بعد لکھتے ہیں:

"رواه الطبرانيُّ، وفيه عبدُ الحميد بن سُليمان، وهو ضعيفٌ".

(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، كتاب التفسير، باب الدعاء عند ختم القرآن، 7/172، رقم: 11712، ط: مكتبة القدسي-القاهرة)

ترجمہ:

’’اس  حدیث کو (امام ) طبرانی رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے،اس( کی سند)  میں عبد الحمید بن سلیمان ہے،اور وہ ضعیف ہے‘‘۔

حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ   اس حدیث کو ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"بِسندٍ ضَعيفٍ"

’’یعنی یہ حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہے‘‘۔

(نتائج الأفكار، كتاب تلاوة القرآن، فصل في آداب الختم وما يتعلق به،  3/174، ط: دار ابن كثير)

خلاصہ یہ ہےکہ مذکورہ حدیث، ایک راوی عبد الحمید بن سلیمان کی وجہ سے ضعیف ہے۔

البتہ اس مضمون کی دیگر احادیث موجود ہیں ، جو اس کے لیے شاہد بن سکتی  ہیں۔چنانچہ فرض نماز کے بعد دعاء کی قبولیت سے متعلق "سنن الترمذي"میں  ایک حدیث ہے:

"حدّثنا محمدُ بن يحيى الثقفيُّ المروزيُّ قال: حدّثنا حَفص بن غِياثٍ عن ابن جُريجٍ عن عبد الرحمن بن سابطٍ عن أبي أمامة-رضي الله عنه- قال: قيل يا رسولَ الله، أيُّ الدعاء أسمعُ؟ قال: جوفَ الليلِ الآخِر، ودُبرَ الصَّلواتِ المكتُوباتِ".

(سنن الترمذي، أبواب الدعوات، باب( بدون الترجمة)، 5/526، رقم: 3499، ط: مصطفى البابي الحلبي-مصر)

ترجمہ:

’’حضرت ابو امامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:عرض کیاگیا:اے اللہ کے رسول!کونسی دعا زیادہ سنی جاتی ہے(یعنی زیادہ جلدی قبول ہوتی ہے)؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:رات کے آخر ی پہراورفرض  نماز  کے بعد کی دعاء(زیادہ جلدی قبول ہوتی ہے)‘‘۔

امام ترمذی رحمہ اللہ مذکورہ حدیث کو روایت کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

"هَذا حديثٌ حسنٌ".

ترجمہ:

’’یہ حدیث حسن ہے‘‘۔

اسی طرح"المعجم الكبير للطبراني"میں   حضرت  انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی ایک موقوف حدیث ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ختمٍ قرآن کے موقع پر دعاء قبول ہوتی ہے، حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں:

"حدّثنا محمّدُ بن علي بن شُعيب السِّمسار، ثنا خالدُ بن خِداشٍ، ثنا جعفرُ بن سليمان عن ثابتٍ أنّ أنس بن مالكٍ-رضي الله عنه- كان إذا خَتم القرآنَ جمع أهلَه وولدَه، فَدعا لهم".

(المعجم الكبير، باب الألف، 1/242، رقم: 674، ط: مكتبة ابن تيمية-القاهرة)

ترجمہ:

’’حضرت  انس بن مالک رضی اللہ عنہ ختم ِ قرآن کے موقع پر اپنے بیوی بچوں کو جمع  کرکے ان کے لیے دعاء کرتے تھے‘‘۔

حافظ نور الدین ہیثمی رحمہ اللہ"مجمع الزوائد ومنبع الفوائد"میں مذکورہ حدیث  ذکر کرنے  کے بعد لکھتے ہیں:

"رَواه الطبرانيُّ، ورِجالُه ثقاتٌ".

(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، كتاب التفسير، باب الدعاء عند ختم القرآن، 7/172، رقم:11713، ط: مكتبة القدسي-القاهرة)

ترجمہ:

’’اس حدیث کو (امام) طبرانی رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے،  اور اس کے تمام روات ثقہ ہیں‘‘۔

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501102435

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں