بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

روایت:’’ جس خاندان یا گھرانے کے لوگ آپس میں صلح رحمی کرتے ہوں وہ کبھی محتاج نہیں ہوں گے‘‘ کی تخریج وتحقیق


سوال

درج ذیل حدیث، احادیث کی کتابوں میں موجود ہے؟ رہنمائی فرمائیں:

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس خاندان یا گھرانے کے لوگ آپس میں صلح رحمی کرتے ہوں وہ کبھی محتاج نہیں ہوں گے۔

جواب

سوال میں جس روایت کے الفاظ   کا ترجمہ ذکر کرکے اُس کی اسنادی حیثیت کے متعلق دریافت کیا  گیا ہے، اُس کے متعلق  تفصیل درج ذیل ہے:

واضح رہے کہ  "سنن أبي داود"، "سنن الترمذي"، "سنن ابن ماجه"ودیگر کتب ِ حدیث میں قطع رحمی کی سزا سے متعلق ایک روایت مذکور ہے۔"سنن الترمذي"کی روایت کے الفاظ درج ذیل ہیں:

"حدّثنا علِيُّ بنُ حُجْرٍ، قالَ: أخبرنا إسماعيلُ بنُ إبراهيمَ عنْ عُيينةَ بنِ عبدِ الرحمنِ عنْ أبيهِ عنْ أبِيْ بكرةَ -رضي الله عنه- قالَ: قالَ رسولُ اللهِ -صلّى الله عليه وسلّم-: مَا مِنْ ذنبٍ أجدرُ أنْ يُعجِّلَ اللهُ لِصاحبِه العُقوبةَ في الدّنيا معَ مَا يدّخِرُ لهُ في الآخرةِ مِنَ البغْيِ وقطيعةِ الرّحِمِ. هَذا حديثٌ صحيحٌ".

(سنن الترمذي، أبواب صفة القيامة والرقائق والورع، باب (بدون الترجمة)، 4/664، رقم:2511، ط: مصطفى البابي الحلبي- مصر)

ترجمہ:

’’(حضرت) ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  کوئی گناہ اس بات کے لائق نہیں  ہے کہ اللہ تعالی اُس کا ارتکاب کرنے والے کو دنیا میں بھی اُس کی سزادے دے   اور (مرتکب) کو  آخرت میں بھی دینے کے لیے (اُس سزا) کو  اُٹھا رکھے ، ہاں دو   گناہ بے شک اس بات کے لائق ہیں، ایک تو امامِ وقت کے خلاف بغاوت کرنا اور دوسرا  ناتا توڑنا‘‘۔

"سنن الترمذي"کی مذکورہ روایت سند کے اعتبار سے صحیح ہے۔

حافظ نو ر الدین ہثمی رحمہ  اللہ نے "مجمع الزوائد ومنبع الفوائد"میں    مذکورہ روایت امام طبرانی رحمہ اللہ کے حوالے سے کچھ اضافہ کے ساتھ درج ذیل الفاظ میں ذکر کی ہے:

"وعنْ أبِيْ بكرةَ -رضي الله عنه- قالَ: قالَ رسولُ اللهِ -صلّى الله عليه وسلّم-: مَا مِنْ ذنبٍ أجدرُ أنْ يُعجِّلَ اللهُ لِصاحبِه العُقوبةَ في الدّنيا معَ مَا يدّخِرُ لهُ في الآخرةِ

مِنْ قطيعةِ الرّحِمِ والخيانةِ والكذِبِ. وإنّ أعجلَ البرِّ ثواباً لَصِلةُ الرّحِمِ، حتّى إنّ أهلَ البيتِ لَيكونُوْا فقراءَ فَتنمُوْ أموالُهم ويكثرُ عددُهم إذا تواصلُوْا... رَواهُ الطّبرانِيُّ عنْ شيخِه عبدِ اللهِ بنِ مُوْسَى بنِ أبِيْ عثمانَ الأنطاكِيِّ، ولَمْ أعرِفْه، وبقيّةُ رِجالِه ثقاتٌ".

(مجمع الزوائد، كتاب البر والصلة، باب صلة الرحم وقطعها، ج:8، ص:150-151، رقم:13456، ط: مكتبة القدسي - القاهرة)

ترجمہ:

’’ (حضرت) ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  کوئی گناہ اس بات کے لائق نہیں  ہے کہ اللہ تعالی اُس کا ارتکاب کرنے والے کو دنیا میں بھی اُس کی سزادے دے   اور (مرتکب) کو  آخرت میں بھی دینے کے لیے (اُس سزا) کو  اُٹھا رکھے ، ہاں  تین    گناہ بے شک اس بات کے لائق ہیں، ایک ناتا توڑنا، دوسرا خیانت کرنا، تیسرا جھوٹ بولنا۔ بلاشبہ ثواب کے اعتبار سب سے جلدی  نیکی  صلہ رحمی ہے(یعنی وہ نیکی جس کا ثواب جلدی ملتا ہے وہ صلہ رحمی کرنا ہے)، یہاں تک کہ  اگر  کسی گھر کے لوگ فقراء ومحتاج ہوں  اور وہ صلہ رحمی کرنے لگیں تو اُن کے مال میں بڑھوتری ہوگی اور اُن کی تعداد  میں کثرت ہوگی (یعنی اُن کے مال واولاد میں برکت ہوگی)‘‘۔

 مذکورہ  روایت   میں امام طبرانی رحمہ اللہ کے شیخ حضرت  عبد اللہ بن موسی بن ابو عثمان الانطاکی رحمہ اللہ  کی حافظ  نور الدین ہثمی رحمہ اللہ کو پہچان نہیں ہوسکی(یعنی اُن کے نزدیک وہ مجہول ہیں، مگر دیگر حضرات کی تصریح کے مطابق   وہ بھی ثقہ  ہیں) ، باقی اس کے تمام روات ثقہ ہیں۔بہرکیف! مذکورہ روایت کے تمام روات ثقہ ہیں۔

نیز مذکورہ روایت  "صحيح ابن حبان"میں    بھی مذکور ہے، اور اُس میں وہ اضافہ بھی مذکور ہےجس کے متعلق سوال میں دریافت کیا گیا ہے۔"صحيح ابن حبان"کی روایت کے الفاظ درج ذیل ہیں:

"أخبرنا أحمدُ بن علي بن المثنّى، قال: حدّثنا مُسلم بن أبي مسلم الجَرميُّ، قال: حدّثنا مَخلدُ بن الحسين عن هِشامٍ عن الحسن عن أبي بَكرةَ-رضي الله عنه- أنّ النبيَّ -صلّى الله عليه وسلّم- قال: إنّ أعجلَ الطاعة ثواباً صلةُ الرحم، حتّى إنّ أهلَ البيت لَيكونُوا فَجرةً فَتنمُو أموالُهم ويَكثرُ عددُهم إذا تَواصلُوا، ومَا مِن أهل بيتٍ يَتواصلُون فَيحتاجُون".

(صحيح ابن حبان، كتاب البر والإحسان، باب صلة الرحم وقطعها،  2/182، رقم:440، ط: مؤسسة الرسالة-بيروت)

ترجمہ:

’’ (حضرت) ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بلاشبہ ثواب کے اعتبار سب سے جلدی  نیکی  صلہ رحمی ہے(یعنی وہ نیکی جس کا ثواب جلدی ملتا ہے وہ صلہ رحمی کرنا ہے)،یہاں تک کہ  اگر  کسی گھر کے لوگ فقراء ومحتاج ہوں  اور وہ صلہ رحمی کرنے لگیں تو اُن کے مال میں بڑھوتری ہوگی اور اُن کی تعداد  میں کثرت ہوگی (یعنی اُن کے مال واولاد میں برکت ہوگی)، اور جس بھی  گھر کے لوگ صلہ رحمی کرتے  ہوں وہ محتاج وضرورت نہیں ہوں گے‘‘۔

خلاصہ کلام: مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا   کہ روایت: "مَا مِنْ ذنبٍ أجدرُ أنْ يُعجِّلَ اللهُ لِصاحبِه العُقوبةَ في الدّنيا معَ مَا يدّخِرُ لهُ في الآخرةِ مِنَ البغْيِ وقطيعةِ الرّحِمِ"پر  امام طبرانی رحمہ اللہ نے یہ اضافہ ذکر کیا ہے:" ... والخيانةِ والكذِبِ.  وإنّ أعجلَ البرِّ ثواباً لَصِلةُ الرّحِمِ، حتّى إنّ أهلَ البيتِ لَيكونُوْا فقراءَ فَتنمُوْ أموالُهم ويكثرُ عددُهم إذا تواصلُوْا"، بعد ازاں حافظ ابن حبان رحمہ اللہ اس پر  اضافہ:"ومَا مِن أهل بيتٍ يَتواصلُون فَيحتاجُون"ذکر کیا ہے( اور اسی اضافہ کے متعلق سوال میں دریافت کیا گیا ہے)، اور یہ  دونوں قسم کے اضافات چوں کہ ثقہ روات کی طرف سے ہیں ، اور  اہلِ علم  نے ان اضافات کو  قبول بھی کیا ہے اور اپنی اپنی کتابوں  میں انہیں  نقل بھی کیا ہے، چنانچہ حافظ منذری رحمہ اللہ نے "الترغيب والترهيب"میں، علامہ ابنِ رسلان رحمہ اللہ نے "شرح سنن أبي داود"میں    مذکورہ دونوں اضافات ذکر کیے ہیں، اور ان کے علاوہ دیگر حضرات نے بھی یہ اضافات ذکر کیے ہیں، لہذا مذکورہ  روایت کو ان اضافات  کے ساتھ بیان کیا جاسکتا ہے۔

"الفرائد على مجمع الزوائد (ترجمة الرواة الذين لم يعرفهم الحافظ الهيثمي)"میں ہے:

"عبدُ اللهِ بنُ مُوْسَى بنِ أبِيْ عثمانَ الأنطاكِيُّ: قالَ : لَمْ أعرِفْه. قلتُ: هُو أبو محمّدٍ الدِّهقانُ الأنماطِيُّ، وأمّا نِسبةُ الأنطاكِيِّ لهُ فَلَمْ أجِدْها, ولعلّه يُنْسَبُ إليْها حيثُ إنّ لهُ شيوخًا ينتسبُوْن إليْها كما في"تاريخ بغداد". وقد قالَ الخطيبُ لمّا ترجمَ لهُ في "تاريخِه" : مَا علمتُ إلّا خيراً".

(الفرائد على مجمع الزوائد، 1/161، رقم:321، ط: دار الإمام البخاري، الدوحة- قطر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501102293

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں