بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت آدم علیہ السلام کے ہندوستان میں اترنے کی تحقیق


سوال

حضرت آدم علیہ السلام،  ہندوستان میں اتارے گئے تھے ، اور حضرت حوا  جدہ میں اتاری گئی تھیں۔  یہ بات صحیح ہے یا نہیں؟  ایک کتاب ہے:  خلافت راشدہ اور ہندوستان  از قاضی اطہر مبارک پوری  رحمہ اللہ۔ یہ کتاب انٹرنیٹ پر موجود ہے اور اس کتاب کے صفحہ نمبر 39 اور 40 پر   حاشیہ میں  اس بات کے حوالہ جات بھی درج ہیں ۔

جواب

مشہور قول کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام کو   ہندوستان میں اور حضرت حوا کو جدہ میں اتارا  گیا تھا۔

"المستدرك على الصحيحين" میں ہے:

"أخبرني أحمد بن يعقوب الثقفي، ثنا موسى بن هارون، ثنا عمرو بن علي، ثنا عمران بن عيينة، أنبأ عطاء بن السائب، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: إن أول ما أهبط الله ‌آدم إلى أرض ‌الهند. هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه.

وقال الذهبي في التلخيص: صحيح".

(المستدرك على الصحيحين، أبو عبد الله الحاكم، ط: دار الكتب العلمية مع تضمينات الذهبي في التلخيص وغيره، تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا، الطبعة الأولى، 1411هـ-1990م، 591/2، الرقم: 3994)

"مصنف عبد الرزاق" میں ہے:

"عبد الرزاق، عن ابن عيينة، عن فرات القزاز، عن أبي الطفيل، عن علي قال: خير واديين في الناس وادي مكة، وواد في الهند هبط به آدم صلى الله عليه وسلم، فيه هذا الطيب الذي تطيبون به، وشر واديين في الناس وادي الأحقاف، وواد بحضرموت، يقال له: بَرَهُوْتُ، وخير بئر في الناس زمزم، وشر بئر في الناس بُلْهُوْتُ، ‌وهي ‌بئر ‌في ‌بَرَهَوْتَ ‌تجتمع ‌فيه ‌أرواحُ ‌الكفار".

(المصنف، عبد الرزاق الصنعاني، ط: دار التأصيل، الطبعة الثانية، 1437ه-2013م، باب زمزم وذكرها، 313/5، الرقم: 9442)

اس روایت کے تمام روات ثقہ ہیں۔

تفسير ابن ابي حاتم" میں ہے: 

"حدثنا علي بن الحسين ثنا هشام بن عمرو الغساني ثنا عباد بن ميسرة عن الحسن قال: أهبط آدم بالهند، وحواء بجدة، وإبليس بدست ميسان من البصرة على أميال وأهبطت الحية بأصبهان".

(تفسير القرآن العظيم لابن ابي حاتم الرازي، ط: مكتبة نزار مصطفى الباز، تحقيق: أسعد محمد الطيب، الطبعة الثالثة، 1419ه، قوله: ولكم في الأرض مستقر، 89/1)

"الطبقات الكبرى" میں ہے:

"قال: أخبرنا هشام بن محمد. أخبرني أبي عن أبي صالح عن ابن عباس. قال:خرج آدم من الجنة بين الصلاتين. صلاة الظهر وصلاة العصر. فأنزل إلى الأرض.وكان مكثه في الجنة نصف يوم من أيام الآخرة. وهو خمسمائة سنة من يوم كان مقداره اثنتي عشرة ساعة. واليوم ألف سنة مما يعد أهل الدنيا. فأهبط آدم على جبل بالهند يقال له: نوذ. وأهبطت ‌حواء بجدة". 

(الطبقات الكبرى، ابن سعد، ط: دار الكتب العلمية، تحقيق: محمد عبد القادر عطا، الطبعة الأولى، 1410ه-1990م، ذكر من ولد رسول الله صلى الله عليه وسلم من الأنبياء، 30/1)

اگر چہ حضرت حوا کے بارے میں روایات ، کلام سے خالی نہیں ، لیکن تاریخی روایت میں اصولی طور پر  گنجائش ہے۔

اس بارے میں ابن کثیر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ:  "مفسرین نے ان دونوں کے مقامات کو ذکر کیاہے، ان اخبار کا منتہی،  اسرائیلی روایات ہیں، اللہ ہی کو ان کی صحت کا علم ہے،  اگر ان مقامات کی تعیین کا فائدہ مکلفین کو دنیا  یا آخرت کے اعتبار  سے  ہوتا تو اللہ تعالی اس کو اپنی کتاب میں ضرور ذکر فرماتے یا  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا تذکرہ کرتے"۔

"وقد ‌ذكر ‌المفسرون ‌الأماكن ‌التي هبط فيها كل منهم، ويرجع حاصل تلك الأخبار إلى الإسرائيليات، والله أعلم بصحتها. ولو كان في تعيين تلك البقاع فائدة تعود على المكلفين في أمر دينهم، أو دنياهم، لذكرها الله تعالى في كتابه أو رسوله صلى الله عليه وسلم".

(تفسير القرآن العظيم، إسماعيل ابن كثير، ط: دار طيبة، تحقيق: سامي بن محمد السلامة، الطبعة الثانية، 1420ه-1999م، 399/3)

حضرت  آدم علیہ السلام کے نازل ہونے کے متعلق صحیح اور ضعیف  دونوں قسم کی روایات ملتی ہیں ،البتہ  آپ نے جس کتاب  کے حوالے سے دریافت کیا ہے ، اس میں اس واقعے سے متعلق    صرف  ضعیف روایات درج کی  گئی ہیں، اور انہی کے حوالے سے کلام نقل کیا  گیا ہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101126

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں