بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

روایت:’’ایک نماز قضاء کرنے پر دو کروڑ اٹھاسی لاکھ سال دوزخ میں جلنے کی سزا ۔۔۔ ٳلخ کی تحقیق


سوال

َ’’ایک نماز ضائع کرنے سے دو کروڑ اٹھاسی لاکھ سال دوزخ میں جلنے کی سزا ہے اور قیامت کا ایک دن پچاس ہزار سال لمبا ہوگا‘‘۔ کیا یہ بات کسی حدیث سے ثابت ہے؟

جواب

سوال میں آپ نے جو  روایت ذکر کی ہے ،یہ روایت  درج ذیل کتابوں میں بلا سند  منقول ہے: 

۱- امام  ابو حامد محمد بن محمد  غزالی  رحمہ اللہ (المتوفى: 505ھ) نے اسے بغیر کسی سند کے  نقل فرمایا ہے : 

​ "وَقالَ عليه السلام: مَن تركَ صَلاةً حَتّى مَضتْ وقتُها، ثُمّ قَضاها عُذِّب في النار حُقبًا، والحُقبُ ثمانون سنةً، كُلُّ سنةٍ ثلاثُ مائةٍ وستون يومًا، كُلُّ يومٍ ألفُ سنةٍ مما تَعدُّون ".

​ ترجمہ: حضور صلی  اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص نماز کو چھوڑ دے  یہاں تک اس کا وقت نکل جائے ، پھر اُسے قضا کر لے، (گو وہ بعد میں پڑھ بھی لے، پھر بھی اپنے وقت پر نہ پڑھنے کی وجہ سے )وہ ایک حُقب جہنم میں جلے گا، اور حقب کی مقدار اسی برس کی ہوتی ہے، اور ایک برس تین سو ساٹھ دن کا، اور (قیامت کا) ایک دن ایک ہزار برس کے برابر ہوگا۔ (اس حساب سے ایک حقب کی مقدار  دو کروڑ اٹھاسی لاکھ برس ہوئی)۔ 

اور پھر امام غزالی رحمہ اللہ نے اس کی کچھ تشریح بھی درج الفاظ میں کی ہے : 

"يَعني تركُ الصلاةِ إِلى وقت القضاءِ إثمٌ، لَو عاقبَ اللهُ تعالى به يكون جزاءُه هكذا، ولكنَّ اللهَ تعالى يتكرّمُ بأن لا يُجازيَ به إذا تابَ عنه".​

(مشكاة الأنوار في لطائف الأخبار من المواعظ والنصايح للغزالي، الباب الخامس والعشرون في بيان عقوبة ترك الصلاة، ص: 205، ط: المطبعة الكريمية بلدة قزان، 1911ء)

۲۔  شیخ احمد بن محمد الرومی الحنفی رحمہ اللہ (المتوفی:۱۰۴۳ھ) نے اپنی مشہور کتاب ’’مجالسُ الأبرار‘‘ میں بغیر  سند وحوالہ کے صیغہ مجہول کے ساتھ  یہ روایت  ذکر فرمائی ہے: 

"لما رُوي أنّه -صلّى الله عليه وسلّم قال: مَن تركَ الصّلاةً حَتّى مَضى وقتُها، ثُمّ قَضى عُذِّب في النار حُقبًا، والحُقبُ ثمانون سنةً، والسَّنةُ  ثلاثُ مائةٍ وستون يومًا، كُلُّ يومٍ كانَ مقدارُه ألفُ سنةٍ ".

(مجالس الأبرار، المجلس الحادي والخمسون، (ص:398)، ط/سهيل أكادمي لاهور، 1430ھ)

۳۔  امام غزالی رحمہ اللہ سے    ابو الفداء اسماعيل حقی بن مصطفى حنفی رحمہ اللہ  (المتوفى: 1127ھ) نے اپنی تفسیر ’’روح البيان‘‘میں دو مقامات پر  درج ذیل الفاظ کے ساتھ  یہ روایت نقل فرمائی ہے: 

(۱) "قَالَ النبيُّ -صَلّى الله عليه وسلّم-:مَن تركَ صَلاةً حَتّى مَضى وقتُها،  عُذِّب في النار حُقبًا، والحُقبُ ثمانون سنةً، كُلُّ سنةٍ ثلاثُ مائةٍ وستون يومًا، كُلُّ يومٍ ألفُ سنةٍ مما تَعدُّون ".

(۲) "وَ فِي الحديثِ:مَن تركَ صَلاةً حَتّى مَضى وقتُها،  ثُمّ قَضى عُذِّب في النار حُقبًا، والحُقبُ ثمانون سنةً، كُلُّ سنةٍ ثلاثُ مائةٍ وستون يومًا، كُلُّ يومٍ ألفُ سنةٍ مما تَعدُّون ".

(روح البيان: (1/34) و(2/276)، ط: دار الفكر - بيروت)

۴-  حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ ( المتوفی 1034ھ)  نے بھی اپنے مکتوبات میں اس روایت کو بغیر کسی سند وحوالہ کے نقل فرمایا ہے، حضرت لکھتے ہیں:  

"ودر اخبار آمدہ است کہ کسے کہ یک نماز فرض بعمد قضا کند یک حقبہ او را در دوزخ عذاب کنند"۔

(مکتوبات امام ربانی ، مکتوب نمبر: 266، (1/ 484)، ط:  ایچ ایم سعید کراچی) 

ترجمہ: "روایات میں آتا ہے کہ جس نے ایک فرض نماز جان بوجھ کر قضا کی اُسے ایک حقب دوزخ میں عذاب ہوگا" ۔

۵۔ تیرہویں صدی ہجری کے شیخ سید عبد الاَحد النوری حنفی رحمہ اللہ کی ’’ الموعظة الحسنة‘‘ میں بھی یہ روایت  صاحبِ روح البیان کی طرح امام غزالی رحمہ اللہ کی  تشریح کے ساتھ نقل ہوئی ہے ، البتہ انہوں نے   ’’روح البيان‘‘ یا ’’مشكاة الأنوار‘‘  کا  حوالہ ذکر نہیں فرمایا  ۔ 

(الموعظة الحسنة، ص:126و127، ط:دار الکتب العلمیة- بیروت)

​۵۔ شیخ الحدیث مولانا  محمد زکریا صاحب نوّراللہ مرقدہ (المتوفی :۱۴۰۲ھ)نے اس روایت کو اپنی کتاب ’’فضائل ِاعمال ‘‘ کے رسالہ ’’فضائل ِنماز‘‘ میں  شیخ احمد بن محمد الرومی حنفی  رحمہ اللہ (المتوفی:۱۰۴۳ھ) کی  ’’مجالس الأبرار‘‘ کے حوالہ سے نقل فرما کر لکھا ہے :

"کذا في مجالس الأبرار". یعنی یہ روايت مجالس الابرار سے نقل کی گئی ہے ۔

اور اس کے بعد  شیخ الحدیث صاحب رحمہ اللہ نے کچھ توضیحی کلمات بھی درج فرمائے ہیں ،  ملاحظہ فرمائیے:

"قلتُ: لم أجدْه  فيما عندي من كُتبِ الحديثِ، إِلاّ أنّ مجالسَ الأبرار مدحهُ شيخُ مَشايِخنا الشّاه عبدُ العزيز الدهلويُّ -رحمهُ الله-". 

ترجمہ: میں کہتا ہوں کہ میرے پاس جو حدیث  کی کتب موجود ہیں،  ان  میں مجھے یہ  حدیث  نہیں مل سکی، البتہ اتناضرور ہے کہ ہمارے شیخ المشائخ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ نے ’’مجالس الابرار‘‘ نامی کی تعریف فرمائی ہے۔

(فضائلِ اعمال، رسالہ: فضائل   ِنماز، باب اوّل، ص:۳۳۰ ،ط:کتب خانہ فیضی،  لاہور)

یعنی حضرت  شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے کتب احادیث میں روایت نہ ملنے کے باوجود اپنے شیخ المشائخ  کی جانب سے کتاب کی تعریف کرنے کی بنیاد پر روایت کو اپنی کتاب میں ذکر فرمایا ہے، کتاب کے بارے شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ کے تعریفی کلمات میں صاحبِ مجالس الابرار کے ورع ، دینداری اور علوم شریعت میں ان کی مہارت ذکر کی گئی  ہے،جس پر اعتماد کرتے ہوئے شیخ الحدیث صاحب رحمہ اللہ نے روایت کو انہی کے حوالہ سے ذکرکرنے کو مناسب جانا ہے ، شاہ صاحب رحمہ اللہ کے تعریفی کلمات ملاحظہ فرمائیے:  

"كتاب مجالس الأبرار في علم الوعظ والنصيحة يتضمن فوائد كثيرة من باب أسرار الشرائع، ومن أبواب الفقه، ومن أبواب السلوك، ومن أبواب رد البدع والعادات الشنيعة، لا علم لنا بحال مصنفه إلا مايكشف عنه هذا التصنيف من تدينه وتورعه وتفننه في العلوم الشرعية".

ترجمہ: کتاب ’’مجالس الابرار‘‘ علمِ وعظ ونصیحت میں،  اسرارِ شریعت،  وابوابِ فقہ، وردِ بدعات وعاداتِ شنیعہ کے فوائدِ کثیرہ پر مشتمل ہے، ہمیں اس کے مصنف کے بارے اس سے زیادہ  حال معلوم نہیں ہوسکا جتنا کہ اس تصنیف سے ظاہر ہوتا ہے، وہ یہ کہ اس کے مصنف ایک عالمِ متدین، متورع اور علومِ شرعیہ کے فنونِ مختلفہ پر حاوی تھے۔(کما ذکرہ الشیخ محمد عبد المجید في خاتمة الطبع، وهكذا ذكره إلياس سركيس في معجم المطبوعات العربية: (1/388) نقلًا عن مقدمة مجالس الأبرار للشيخ إرشاد الحق الأثري، (ص:4)، ط: سهيل أکادمی لاهور، 1430ھ)

واضح رہے کہ شیخ احمد بن محمد الرومی الحنفی رحمہ اللہ (المتوفی:۱۰۴۳ھ)  کی ’’مجالس الابرار ‘‘ پر   محض ہمارے اکابر کےہاں ہی   اعتماد نہیں تھا ، بلکہ کبارعلمائےا  ہلِ حدیث  (مثلاً: محدث شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ،نواب صدیق حسن خان  رحمہ اللہ، محدث بشیر سہسوانی رحمہ اللہ وغیرہ ) نے بھی اس  کتاب پر  اعتماد کیا  اور اس سے استفادہ  کیا ہے، معروف اہلِ حدیث عالم مولانا ارشاد الحق اثری  حفظہ اللہ نے اپنی تحقیق وتعلیق کے ساتھ ’’مجالس الابرار‘‘ کے  طبع شدہ نسخہ کے مقدمہ میں  وضاحت کے ساتھ اس  ذکر فرما یا ہے، وہ فرماتے ہیں : 

"وَکذا اعتمدَ عليه وَاستفادَ منه الشيخُ الإمامُ المحدّثُ شمسُ الحق عظيم آبادي في العون المعبود (4/180)، وَكذا اعتمدَ عليه واستفادَ منه تَرجمانُ السنّة الشيخُ الإمامُ صديق حسن خان في يَقظة أولى الاعتبار (ص: 191 ، 203)، وَكذا الشيخُ المحدّثُ الإمامُ محمّد بشير السهسواني في صِيانة الإنسان عن وَسْوسةِ الشيح دُحلان (ص:  230) إلاّ أنه سمّاه: مُلّا سعد الرومي، واللهُ أعلم"

(مقدمة مجالس الأبرار للشيخ إرشاد الحق الأثري، (ص:4)، ط: سهيل أكادمي لاهور، 1430ھ)

 مذکورہ تفصیل کے بعد عرض ہے کہ یہ روایت مندرجہ بالا کتابوں میں بلا سند مروی ہے، چونکہ سند ملی نہیں، اس لیے اس کی تحقیق بھی ممکن نہیں،  نیز   ذخیرہ احادیث   میں اس روایت کی  ایسی مؤیدات بھی  نہیں ملیں کہ جن  کی بنیاد پر روایت کے معنی کو درست قرار دیا  جاسکے، بعض اہلِ علم نے حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کی جانب سے اس روایت کے وضاحتی کلمات میں’’ تفسیر ابنِ کثیر ’’سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد  نقل فرمایا ہے  کہ: جہنم میں ایک وادی ہے جس سے جہنم ہرروز چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے، جو امتِ محمدیہ کے ریاکاروں کے لیے تیار کی گئی ہے ۔

"عَن ابن عبّاسٍ عَن النبيِّ -صلّی اللہُ علیه وسلّم- قالَ: إنّ في جهنمَ لوادیًا تستعیذُ جهنمُ مِن ذلكَ الواديِّ في کلِّ يومٍ أربعَمأة مرَّةٍ، أُعدَّ ذلكَ الواديُّ للمرائین مِن أُمّة محمدٍ -صلّی الله علیه وسلّم- ".

اوراس کے بعد’’  قرة العیون‘‘ سے  حضرت ابن عباس رضی اللہ کا یہ اثر  نقل کیا ہے کہ : 

"وهو مسکنُ مَن یُؤخِّر الصَّلاةَ عَن وَقتها".

 اور ان دونوں روایتوں کو   مذکورہ (دو کروڑ اٹھاسی لاکھ سال آگ میں جلنے کی) روایت کا مؤید  قرار دیا ہے ، لیکن بظاہر یہ دونوں روایتیں مؤید نہیں بن سکتیں ، کیوں کہ ان  دونوں میں ’’ایک نماز چھوڑنے پر دو کروڑ اٹھاسی لاکھ برس جہنم میں جلنے‘‘ کا ذکر  نہیں ہے، بلکہ  اتنا ذکر ہے کہ  نماز کو مؤخر یعنی قضا کرنے والے کا  ٹھکانہ جہنم کی ایسی وادی ہے، جس سے جہنم خوددن میں چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے ۔ 

 خلاصہ یہ ہے کہ  معتمد کتبِ حدیث میں سوال میں  درج  روایت کی کوئی سند  نہیں ملتی ، لہذا جب تک کوئی معتبر سند نہ ملے، اس  روایت کو نبی علیہ السلام سے منسوب کرکے بیان کرنے سے احتراز لازم ہے۔

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144406101446

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں