نبی کریم صلی الله علیہ و سلم سے کسی نے کوئی ایسا حدیث نقل کی ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے:اگر کوئی تمہیں کہے کہ وہ پہاڑ ایک جگہ سے دوسری جگہ چلا گیا ہے تو اسے مان لو، لیکن یہ کبھی نہ ماننا کہ فلاں آدمی نے وہ عادت چھوڑ دی ہے۔ اگر ایسی کوئی حدیث منقول ہے تووہ حدیث ضعیف ہے یا قوی؟
سوال میں آپ نے جو روایت ذکر کی ہے، اس میں فطرت اور جبلّت کو عادت سے تعبیر کیا ہے، جبکہ حدیث میں اس طرح کی بات فطرت اور جبلّت سے متعلق آئی ہےنہ کہ عادت کے بدلنے سے متعلق ، فطرت اور عادت دو مختلف چیزیں ہیں :
فطرت ہر انسان کے اندر موجود ہوتی ہے جو قدرت کی عطا ہوتی ہے، جیسے: چاہتیں، رجحانات، اچھے برے کی سمجھ ، دانائی ، عقلمندی وغیرہ ،اور فطرت نا قابل ترک عمل ہے،مثلاً جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے عقلمند و دانا پیدا کیا، اور اُس کی سر شت وفطرت میں عقل ودانش کا مادّہ وَدیعت فرمایا، اور اُس کی تقدیر میں فہم و فراست کے جوہر رکھ دیے، تو وہ شخص کبھی بیوقوف اور احمق نہیں ہوسکتا، اِسی طرح جس شخص کی جبلت وخلقت ، حماقت کے سانچے میں ڈھلی ہو، اور جس کو فطرتًا بیوقوف پیدا کیا گیا ہو ،تو وہ عقلمند ودانشمند نہیں ہوسکتا، اِسی طرح جس شخص کی جبلت وخلقت میں شجاعت و بہادری کا جوہر رکھا گیا ہو وہ بزدل نہیں ہوسکتا ،اور جو شخص پیدائشی بزدل ہووہ بہادر نہیں ہوسکتا۔ جبکہ عادت کسی کے اندر ہوتی ہے اور کسی کے اندر نہیں ہوتی ہے، عادت انسان خود بناتا ہے جیسے چائے پینے کی عادت گانا سننے یا گانے کی عادت وغیرہ جو کے قابل ترک عمل ہے۔
فطرت اور جبلّت کے نہ بدلنے سے متعل روایت "مسند أحمد" میں موجود ہے، ملاحظہ فرمائیے:
"حدَّثنا وهبُ بنُ جريرٍ، قال: حدّثنا أبي، قال: سمعتُ يونُس، يحدِّث عن الزُهريِّ، أنّ أبا الدرداء، قال: بينما نحنُ عند رسولِ الله صلّى الله عليه وسلّم نتذاكرُ ما يكونُ، إذْ قال رسولُ الله صلّى الله عليه وسلّم: "إذا سمعتُم بجبلٍ زالَ عن مكانه فَصدِّقوا، وإذا سمعتُم برجلٍ تغيّر عن خُلُقه فلا تُصدِّقوا به، وإنّه يصيرُ إلى ما جُبِل عليه."
(مسند أحمد (45/ 491) برقم(27499)، ط:مؤسسة الرسالة)
ترجمه:چنانچہ (امام شہاب ) زہری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو درداءرضی اللہ عنہ نے فرمایا:ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے آئندہ واقع ہونے والی باتوں پرگفتگو کررہے تھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے(ہماری باتوں کو سن کر)ارشاد فرمایا:جب تم کسی پہاڑ کے بارے میں سنو کہ وہ اپنی جگہ سے ہٹ گیا ہےتواسے سچ مان لو،لیکن جب تم کسی شخص کے بارے میں سنو کہ اس کی فطرت اور جبلت بدل گئی ہےتو اس کا اعتبار نہ کرو، اس لیے کہ انسان اسی کی طرف جاتا ہے جس پر وہ پیدا کیاگیا ہے۔
حدیث کا حکم :
حافظ نورالدین ہیثمی رحمہ اللہ (المتوفى: 807ھ) "مجمع الزوائد ومنبع الفوائد" میں مذکورہ روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
"رَواه أحمدُ، ورجالُه رجالُ الصحيح، إلاّ أنّ الزهريَّ لم يُدرِك أبا الدرداء".
ترجمہ: امام احمد رحمہ اللہ نے اسے روایت کیاہے،اور اس کے رجال صحیح کے رجال ہیں،مگر امام زہری رحمہ اللہ نے حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا۔
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، باب فرغ إلى كل عبد من خلقه، (7/ 196)، برقم(11827)، ط:مكتبة القدسي- القاهرة)
يعني اس روايت كي سند ميں انقطاع ہے۔ اسی بات کو صراحت کے ساتھ علامہ مناوى رحمه الله (المتوفى: 1031ھـ) نے رقم فرمایاہے، وہ فرماتے ہیں :
وَرِجَاله رجال الصَّحِيح، لَكِن فِيهِ انْقِطَاع.
يعني اس روایت کے رجال صحیح کے رجال ہیں ، لیکن اس (کی سند ) میں انقطاع ہے۔
(التيسير بشرح الجامع الصغير للمناوي،حرف الهمزة، (1/ 107)،ط/مكتبة الإمام الشافعي - الرياض1408هـ - 1988م)
مذكوره تفصيل سے معلوم ہوا کہ یہ روایت اپنی سند میں انقطاع کے باعث محدثین کے ہاں ضعیف ہے۔ فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144406101984
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن