بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

روایت:’’آپس میں مصافحہ کیا کرو اس سے کینہ ختم ہو جاتا ہے ۔۔۔الخ‘‘ کی تخریج وتحقیق


سوال

کیا درج ذیل  حدیث، احادیث کی کتابوں میں موجود ہے ؟رہنمائی فرمائیں:

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آپس میں مصافحہ کیا کرو اس سے کینہ ختم ہو جاتا ہے، آپس میں ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو  اس سے باہم محبت پیدا ہوتی ہے اور دشمنی دور ہوتی ہے‘‘۔

جواب

۱۔حدیث کی تخریج:

سوال میں آپ نے جس حدیث کا ترجمہ ذکر کرکے اس کے متعلق دریافت کیا ہے، یہ حدیث"موطأ مالك"میں مذکور ہے۔بعد ازاں "جامع الأصول"، "الأذكار النووية"، "البدر المنير"، "التلخيص الحبير"، إتحاف المهرة"، "مشكاة المصابيح"ودیگر کتبِ تخریج وغیرہ میں بھی  بحوالہ  "موطأ مالك"مذکور ہے۔ "موطأ مالك"میں اس حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں:

"مَالكٌ عَن عطاء بنِ عبد الله الخُراسانيِّ قال: قال رسولُ الله -صلّى الله عليه وسلّم-: تَصافَحُوا يَذهبِ الغِلُّ، وتَهادَوْا تَحابُّوا وتَذهبِ الشَّحناءُ".

(موطأ مالك، كتاب القدر، ما جاء في المهاجرة،  5/1334، رقم:3368، ط: مؤسسة زايد بن سلطان-الإمارات)

ترجمہ:

’’حضرت عطاء بن عبد اللہ خراسانی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:آپس میں ایک دوسرے سے مصافحہ کیا کرو، اس سے بغض وکینہ جاتا رہے گا، اور آپس میں ایک دوسر ےکو ہدیہ وتحفہ بھیجتے رہا کرواس سے محبت بڑھتی ہے اور دشمنی جاتی رہتی ہے‘‘۔

۲۔ مذکورہ حدیث کے دیگر  طرق  اوران کا حکم:

امام مالک رحمہ اللہ نے  مذکورہ حدیث حضرت عطاء بن عبد اللہ خراسانی رحمہ اللہ سے مرسلاً مرفوعاً روایت کی ہے (یعنی حضرت عطاء بن عبد اللہ خراسانی تابعی رحمہ اللہ درمیان میں صحابی کاواسطہ ذکر کیے بغیر  براہِ راست اسے  نبی کریم صلی اللہ روایت کرتے ہیں،یعنی یہ روایت مرسل ہے)۔حافظ ابنِ عبد البر رحمہ اللہ  "التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد"میں مذکورہ حدیث کے دیگر طرق کے بارے میں  لکھتے ہیں:

"وهَذا يتّصلُ مِن وُجوهٍ شَتّى، حِسانٌ كلُّها".

(التمهيد،  تابع حرف العين، عطاء الخراساني ، الحديث الثالث، 21/12، ط: وزارة عموم الأوقاف والشؤون الإسلامية-المغرب)

ترجمہ:

’’یہ حدیث دیگر مختلف طرق سے( اس کے ہم معنی الفاظ کے ساتھ) متصلاً(بھی) مذکور ہے، (اور) وہ سب طرق ( سند کے اعتبارسے ) حسن ہیں‘‘۔

حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ"فتح الباري شرح صحيح البخاري"میں لکھتے ہیں:

"وفي مُرسلِ عطاء الخُرساني في الموطأ: "تَصافَحُوا يَذهبِ الغِلُّ". ولَمْ نَقفْ عليه مَوصولاً، وَاقتصر ابنُ عبد البر عَلى شواهدِه مِن حديثِ البراء وغيرِه".

(فتح الباري، كتاب الأدب، باب المصافحة، 11/55، ط: دار المعرفة-بيروت)

ترجمہ:

"موطأ مالك"میں (حضرت) عطاء خراسانی رحمہ اللہ کی مرسل حدیث ہے:"تَصافَحُوا يَذهبِ الغِلُّ"(آپس میں ایک دوسرے سے مصافحہ کیا کرواس سے بغض وکینہ جاتا رہے گا)۔اس حدیث کے کسی موصول(متصل) طریق سے ہم واقف نہیں ہوسکے،(حافظ) ابنِ عبد البر رحمہ اللہ نے بھی   (حضرت ) براء  اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کی احادیث کے ذریعے اس کے شواہد ذکر کرنےپر اکتفاء کیا ہے(یعنی  حافظ ابنِ عبد البر رحمہ اللہ نے بھی جو   متصل طرق ذکر کیے ہیں وہ بعینہ انہی الفاظ کے سات  اس حدیث  کے متصل طرق نہیں ہیں ، بلکہ اس  کے  ہم معنی  طرق ہیں جو اس کے لیے شواہد بن سکتے ہیں)‘‘۔

حافظ سیوطی رحمہ اللہ"تنوير الحوالك شرح موطأ مالك"میں لکھتےہیں:

"فِي المُصافحة أحاديثٌ مَوصولةٌ بَغيرِ هَذا اللفظِ".

(تنوير الحوالك، كتاب الجامع، 2/214، ط: المكتبة التجارية الكبرى-مصر)

ترجمہ:

’’مصافحہ کے بارے میں( اس کے علاوہ) دیگر الفاظ کے ساتھ متصل احادیث(بھی) موجود ہیں‘‘۔

حافظ ابنِ عبد البر،حافظ ابن حجر اور حافظ سیوطی رحمہم اللہ کےمجموعہ کلام  سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ  امام مالک رحمہ اللہ کی روایت کردہ حدیث:"مَالكٌ عَن عطاء بنِ عبد الله الخُراسانيِّ قال: قال رسولُ الله -صلّى الله عليه وسلّم-: تَصافَحُوا يَذهبِ الغِلُّ، وتَهادَوْا تَحابُّوا وتَذهبِ الشَّحناءُ"(حضرت عطاء بن عبد اللہ خراسانی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:آپس میں ایک دوسرے سے مصافحہ کیا کرواس سے بغض وکینہ جاتا رہے گا، اور آپس میں ایک دوسر ےکو ہدیہ وتحفہ بھیجتے رہا کرواس سے محبت بڑھتی ہے اور دشمنی جاتی رہتی ہے) کا یہ طریق مرسل ہے، انہی الفاظ کے ساتھ اس حدیث کاکوئی اور  متصل طریق نہیں مل  سکا، البتہ اس کے ہم معنی الفاظ کے ساتھ  اس کے  متصل طرق  موجود ہیں، جو سند کے اعتبار سے حسن ہیں اور اس کے لیے شواہد  بھی بن سکتے ہیں۔ 

۳۔ مذکورہ حدیث کا حکم:

علامہ زرقانی رحمہ اللہ "شرح الزرقاني على الموطأ"میں  مذکورہ حدیث کا حکم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"وقال ابنُ المبارك: حديثُ مالكٍ جَيّدٌ".

(شرح الزرقاني على الموطأ، كتاب الجامع، ما جاء في المهاجرة، 4/418، رقم:1685، ط: مكتبة الثقافة الدينية- القاهرة)

ترجمہ:

’’(حضرت  عبد اللہ) ابنِ مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:(امام) مالک رحمہ اللہ کی (روایت کردہ مذکورہ) حدیث ( سند کے اعتبار سے) جید(یعنی حسن) ہے‘‘۔

حافظ سخاوی رحمہ اللہ"المقاصد الحسنة"میں لکھتے ہیں:

"وهُو حديثٌ جَيّدٌ، وقد بَيَّنتُ ذلكَ معَ مَا وقفتُ عليه مِن معناه في "تكملة شرح الترمذي".

(المقاصد الحسنة، حرف التاء المثناة، ص: 271، رقم:352، ط: دار الكتاب العربي-بيروت)

ترجمہ:

’’یہ حدیث( سند کے اعتبار سے ) جید(یعنی حسن) ہے، یہ اور اس کے ہم معنی جن طرق سے میں واقف ہوسکاانہیں میں نے"تكملة شرح الترمذي" میں بیان کیا ہے‘‘۔

حافظ سیوطی رحمہ اللہ"جمع الجوامع"میں لکھتے ہیں:

"مَالكٌ في الموطأ عن عطاء الخُراساني رَفعه مُرسلاً، وهو جَيّدٌ".

(جمع الجوامع، حرف التاء، 4/361، ط: جمهورية مصر العربية-القاهرة)

ترجمہ:

’’(امام) مالک رحمہ اللہ نے میں (حضرت) عطاء خراسانی رحمہ اللہ سے اسے مرفوعاً مرسلاً روایت کیا   ہے، اور یہ حدیث ( سند کے اعتبار سے) جید(یعنی  حسن ) ہے‘‘۔

خلاصہ یہ ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کی روایت کردہ مذکورہ حدیث سند کے اعتبار سے ’’حسن‘‘ ہے اور قابلِ بیان ہے۔

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504101076

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں