بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

روایت:’’عالم کا سونا عابد کی عبادت سے افضل ہے‘‘ کی تحقیق


سوال

عالم کا سونا عابد کی عبادت سے افضل ہے۔ کیا یہ صحیح ہے ؟

جواب

 عابد کی عبادت کے مقابلے میں عالم کے سونے کی فضیلت سے متعلق تین طرح کے الفاظ منقول ہیں، ذیل میں  وہ تینوں  طرح کے الفاظ ذکرکرکے ان کی تفصیل ذکر کی جائے گی :

۱۔"نومُ العالم أفضلُ مِن عبادة العابد"(عالم کا سوناعابد کی عبادت سے افضل ہے):

یہ حدیث ہمیں اہلِ سنت والجماعت کی کتابوں میں تلاش کے باوجود نہیں ملی۔البتہ روافض  کی کتابوں میں سے"من لا يحضره الفقيه"، "عدة الداعي ونجاح الساعي"،"عوالي اللئالي للأحسائي"، "مستدرك سفينة البحار"، "مستطرفات السرائر للحلي"وغیرہ میں یہ  حدیث مذکورہے۔"من لا يحضره الفقيه"میں یہ حدیث درج ذیل الفاظ میں مذکور ہے:

"روى حمّاد بنُ عمروٍ وأنس بنُ محمّدٍ عن أبيه جميعاً -يعني حماداً ومحمداً والدَ أنس- عَن جعفر بنِ محمّدٍ عن أبيه عن جدِّه عن علي بنِ أبي طالبٍ عن النبيِّ- صلّى الله عليه وسلّم- أنّه قاله: - وذكر حديثاَ طويلاً جداً، وفيه- : نومُ العالم خيرٌ مِن عبادة العابد".

(من لا يحضره الفقيه، 4/352) 

مذکورہ حدیث کی سند میں  "حماد بن عمرو"اور" محمد والد ٲنس"دونوں راوی مجہول ہیں، جعفر صادق سے  روایت کرنے والوں میں ان کا ذکرنہیں ہے،نیز اہلِ سنت والجماعت اور روافض  کی رجال کی کتابوں میں بھی ان کاتذکر نہیں ہے۔ "من لا يحضره الفقيه"میں  تعلیقاً لکھا ہے:

"حماد بنُ عمروٍ -لعلّه النصيبي- غيرُ مذكورٍ، وكذا أنس بنُ محمّد، وفي الطريق إليهما مجاهيلُ، وكأنّهم مِن العامّة -يعني أهل السنّة- ".

(من لا يحضره الفقيه، 4/352)

ابو القاسم  خوئی رافضی"معجم رجال الحديث"میں   "حماد بن عمرو"کے بارے میں لکھاہے:"لم يُنقل عن أحدٍ توثيقه"(کسی سے بھی اس کی توثیق منقول  نہیں ہے)۔اور مذکورہ حدیث  کی سند پر کلام کرتے ہوئے لکھاہے:

"طريقُ الصدوق إليه في وصيّة النبيّ- صلّى الله عليه وآله- لأمير المؤمنين- عليه السّلام- .... ضعيفٌ بعدّة مِن المجاهيل".

(معجم رجال الحديث، 7/235) 

مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ خود  روافض کے ہاں  بھی یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح اورثابت نہیں  ہے۔

۲۔"نومُ العالم عبادةٌ"(عالم کاسونا عبادت ہے):

یہ حدیث امام ابو طالب مکی رحمہ اللہ نے "قوت القلوب"اور امام غزالی رحمہ اللہ نے "إحياء علوم الدين"میں بغیر کسی سند اور حوالہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے  ذکر کی ہے۔

"إحياء علوم الدين"میں ہے:

"قال -صلّى الله عليه و سلّم-: نومُ العالم عبادةٌ ونفَسه تسبيحٌ".

(إحياء علوم الدين، كتاب الأوراد، بيان أوراد الليل، 1/343، ط: دار المعرفة-بيروت)

"قوت القلوب"میں ہے:

"وقد رُوِّينا في خبرٍ: نومُ العالم عبادةٌ ونفَسه تسبيحٌ".

(قوت القلوب، الفصل الثالث عشر، كتاب جامع .... إلخ،  1/67، ط: دار الكتب العلمية-بيروت)

علامہ تاج الدین سبکی رحمہ اللہ نے "طبقات الشافعيه الكبرى"میں امام غزالی رحمہ اللہ کے حالات میں ایک فصل میں "إحياء علوم الدين"کی ان  احادیث کو  یکجا کیا ہے ،جن کی سند علامہ سبکی رحمہ اللہ کو نہیں مل سکی، انہیں احادیث  میں مذکورہ حدیث  کوبھی  ذکرکیاہے،چنانچہ لکھتے ہیں:

"وهذا فصلٌ جمعتُ فيه جميعَ ما في كتاب الإحياء مِن الأحاديث التي لم أجدْ لها إسناداً  ... حديث: نومُ العالم عبادةٌ ونفَسه تسبيحٌ".

(طبقات الشافعيه الكبرى، الطبقة الخامسة، ج:6، ص:287و307، ط: دار هجر للطباعة والنشر والتوزيع)

ترجمہ:

’’اس فصل میں ، میں نے کتاب "إحياء علوم الدين"کی ان تمام احادیث کو جمع کیا ہے،جن کی سند مجھے نہیں مل سکی۔۔۔(ان ہی  احادیث میں سے ایک)حدیث :"نومُ العالم عبادةٌ ونفَسه تسبيحٌ"ہے۔

علامہ عراقی رحمہ اللہ مذکور ہ حدیث کے متعلق لکھتے ہیں:

"قلتُ: المعروفُ فيه "الصائمُ" دون "العالم".

ترجمہ:

’’میں کہتا ہوں:اس حدیث میں "الصائم"کے بجائے"العالم"کے الفاظ زیادہ مشہور ہیں‘‘(یعنی  اس حدیث کے مشہور الفاظ:"نومُ الصائمِ عبادةٌ".(یعنی :روزےدار کاسونا عبادت ہے)‘‘۔

(إحياء علوم الدين ومعه تخريج الحافظ العراقي، 2/173)

 علامہ عجلونی رحمہ اللہ"كشف الخفاء ومزيل الألباس"میں لکھتے ہیں:

 "نومُ العالم عبادةٌ . ذكره الغزاليُّ في الإحياء حديثاً في كتاب الأوراد بزيادة: "ونفَسه تسبيحٌ"، ولم يذكر له صحابيّاً ولا مخرجاً، وكذا العراقي في تخريجه وإنّما قال:المعروفُ فيه "الصائمُ" دون "العالم".

(كشف الخفاء، حرف النون، 2/329، رقم:2865، ط: مكتبة القدسي-القاهرة)

ترجمہ:

’’نومُ العالم عبادةٌ (عالم کا سونا عبادت ہے)۔امام غزالی رحمہ اللہ نے اسے "إحياء علوم الدين"کی "كتاب الأوراد"میں "ونفَسه تسبيحٌ"کے اضافے کے ساتھ حدیث کے طور پر ذکر کیا ہے،لیکن اس کو روایت کرنے والے کسی صحابی ،یاماخذ(حوالہ)کاذکر نہیں کیا، (حافظ) عراقی رحمہ اللہ نے(بھی) اپنی ’’تخریج‘‘ میں اس کو اسی طرح ذکر کیاہے، البتہ وہ لکھتے ہیں:اس حدیث میں "الصائم"کے بجائے"العالم"کے الفاظ زیادہ مشہور ہیں‘‘(یعنی  اس حدیث کے مشہور الفاظ:"نومُ الصائمِ عبادةٌ".(یعنی :روزےدار کاسونا عبادت ہے)‘‘۔

ملا علی قاری رحمہ اللہ "الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة"میں لکھتے ہیں:

"حديث: نومُ العالم عبادةٌ . لا أصلَ له في المرفوع هكذا".

(الأسرار المرفوعة، حرف النون، ص:374، رقم:567، ط: دار الأمانة-بيروت)

ترجمہ:

’’حدیث:"نومُ العالم عبادةٌ".مرفوع میں اس کی اصل  اس طرح نہیں ہے‘‘۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے معلوم ہوا کہ یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنداً ثابت نہیں ہے،اس لیے ان الفاظ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے بیان کرنے سے احتراز کرناچاہیے۔

۳۔"نومٌ على علمٍ خيرٌ مِن صلاةٍ على جهلٍ"(عالم کا سوناجاہل کی عبادت سے بہتر ہے):

مذکورہ حدیث امام ابونعیم اصبہانی رحمہ اللہ نے "حلية الأولياء وطبقات الأصفياء"میں  روایت کی ہے:

"حدّثنا عبدُ الله بنُ محمّدٍ، قال: ثنا عبدُ الرحمن بنُ الحسن، قال: نا أحمد بنُ يحيى الصوفيُّ، قال: نا محمد بنُ يحيى الضرير، قال: ثنا جعفر بنُ محمّدٍ عن أبيه عن إسماعيل عن الأعمش عن أبي البَختري عن سلمان-رضي الله عنه- أنّ النبيَّ -صلّى الله عليه وسلّم- قال: نومٌ على علمٍ خيرٌ مِن صلاةٍ على جهلٍ. كذا رواه الأعمشُ عن أبي البَختري، وأرسله أبو البَختري عن سلمان أيضاً".

(حلية الأولياء، الطبقة الأولى من التابعين، ترجمة: سعيد بن فيروز أبو البختري، 4/385، ط: دار الكتاب العربي-بيروت)

ترجمہ:

’’حضرت سلمان رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:عالم کاسوناجاہل کی عبادت سے بہتر ہے‘‘۔

مذکورہ حدیث کی سند میں ایک راوی"أبو البَختري"  کے بارےمیں  علامہ مناوی رحمہ اللہ"فيض القدير شرح الجامع الصغير"میں لکھتے ہیں:

"وفيه أبو البَختري. قال الذهبيُّ في الضعفاء: وقال دُحيمٌ: كذّابٌ".

(فيض القدير، حرف النون، 6/291، رقم: 9294، ط: المكتبة التجارية الكبرى-مصر)

ترجمہ:

’’اس حدیث کی سند میں (ایک راوی) ابوالبختری ہے، جس کےبارےمیں  حافظ ذہبی رحمہ اللہ"المغني في الضعفاء"میں لکھتے ہیں:دحیم نے کہاہےکہ یہ کذاب ہے‘’۔

اس حدیث کو امام ابونعیم اصبہانی رحمہ اللہ نے "أبو البَختري سعيد بن فيروز" کے ترجمہ میں ذکر کیا ہے، جس  سے ظاہر  ہوتا ہے کہ مذکورہ حدیث کی سند میں "أبو البَختري"سے مراد"سعيد بن فيروز"ہے، جس  "أبو البَختري"کوامام دحیم رحمہ اللہ نے کذاب کہا ہے وہ اس حدیث کی سند میں مذکور نہیں ہے۔علامہ  احمد بن محمد بن صدیق غماری رحمہ اللہ "المداوي لعلل الجامع الصغير وشرحي المناوي"میں لکھتے ہیں:

"... ثمّ إنّ أبا البَخترى الذي كذّبه دحيمٌ، ليس هو المذكورُ في سند هذا الحديث".

(المداوي، حرف النون، 6/479، رقم:3597، ط: دار الكتبي- القاهرة)

ترجمہ:

’’۔۔۔ بلاشبہ جس"أبو البَختري"  کو (امام) دحیم رحمہ اللہ   نے کذاب کہا ہے۔وہ اس حدیث کی سند میں مذکورہی نہیں ہے۔بلکہ وہ  کوئی مجہول  غیر مشہور شخص ہے‘‘۔

خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ حدیث ، سند کے اعتبار سے ثابت ہے، لہذا اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے بیان کیا جاسکتا ہے۔

باقي وه "أبو البَختري"جسے امام دحیم رحمہ اللہ  ودیگر حضرات نے کذاب کہا ہے  ،اس سے مراد بغداد کاقاضی وہب بن وہب ابو البختری القرشی ہے،جس کے بارے میں ائمہ محدثین کے اقوال مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔شعیب بن اسحاق فرماتے ہیں:"كذّابُ هذه الأمّة وهبُ بنُ وهب".(اس اُمت کاکذاب وہب بن وہب ہے)۔

۲۔محمد بن عوف الحمصی کہتے ہیں  کہ میں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے ابو البختری کے بارے میں پوچھاتو انہوں نے فرمایا: "مطروحُ الحديث".

۳۔ابو طالب احمد بن حمید کہتے ہیں کہ میں نےامام احمد بن  حنبل سے(نام لیے بغیر یوں) عرض کیا:"أحدٌ يضعُ الحديث فقال: نعم! أبو البَخترى الذي كان قاضياً، كان كذّاباً يضعُ الحديث، روى أشياءَ لم يروِها أحدٌ".(ایک ہے جو حدیث گھڑتا ہےتو انہوں نے فرمایا:ہاں!ابولبختری جو قاضی ہے ،وہ کذاب ہے، حدیث گھڑتا ہے، اس نے کچھ ایسی چیزیں(حدیثیں) روایت کی ہیں،جنہیں کسی اور نے روایت نہیں کیا)۔

۴۔اسحاق بن منصور کہتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "أبو البَخترى اكذبُ الناس".(ابو البختری لوگوں میں سب سے بڑا کذاب ہے)۔

۵۔اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: "كما قال كان كذّاباً".(جیسےکہاگیا ہے کہ وہ کذاب ہے)۔

۶۔یحیی بن معین کہتے ہیں:"أبو البَخترى كذّابٌ خبيثٌ يضعُ الأحاديث".(ابوالبختری کذاب خبیث ہے، حدیثیں گھڑتا ہے)۔

۷۔ابوبکر بن ابی خیثمہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کو فرماتے ہوئے سنا: " لو اجتريتُ أن أقولَ حدٍ إنّه يكذِب على رسول الله -صلّى الله عليه و سلّم- لقلتُ ابو البَخترى".(اگر میں کسی کے بارے میں یہ کہنے کی جرات کرتا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرجھوٹ بولتا ہے تو ابولبختری کے بارے میں یہ جرات کرتا)۔

۸۔ابوحاتم رازی کہتے ہیں:"كان كذّاباً".(وہ کذاب ہے)۔

(الجرح والتعديل لعبد الرحمن الرازي، 9/25، رقم:116، ط: دار إحياء التراث العربي-بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411102311

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں