بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رات کو بارش کی وجہ سے گھر میں نماز پڑھنے کا حکم


سوال

  جب بارش میں  رات کو مسجد نہیں جایاجاسکتا تو کیا گھرمیں ایک کمرہ بطور عارضی مسجد مقرر کرکے مستقل باجماعت نماز ادا کی جاسکتی ہے اور تروایح پڑھی جاسکتی ہے  ؟

جواب

 صورت مسئولہ میں اگر رات کو بارش اتنی ہوکہ مسجدمیں نہیں جایاجاسکتایعنی (تیز بارش ہو، راستہ میں کچڑکی وجہ سے   پھسلنےکا خطرہ ہو،رات کو تیز آندھی چل رہی ہو)تو ایسی صورت میں گھر میں جماعت کے ساتھ نماز اور تروایح ادا کرنا بلاکراہت درست ہے،تاہم اگر ہلکی بارش ہو،لیکن نقصان کا اندیشہ نہ ہو تو ایسی صورت میں مسجد آکرجماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کوترجیح دینی چاہیے۔

نیز کسی شرعی عذر کے بغیر گھر میں نماز پڑھنے کی مستقل  عادت بنانا سخت مکروہ ہے ،اور   احادیث میں جماعت کی نماز چھوڑ کر گھر میں  اکیلےنماز پڑھنے پر سخت وعیدیں آئی ہیں، ایک حدیث میں ہے کہ:جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے ارادہ کیا تھا  کہ چند نوجوانوں سے کہوں کہ وہ ایندھن اکٹھا کرکے لائیں، پھر میں ان لوگوں کے پاس جاوٴں جو بلاعذر کے گھروں میں نماز پڑھ لیتے ہیں اور ان کے گھروں کو جلادوں۔ 

سنن ابوداؤد میں ہے:

"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌لقد ‌هممت أن آمر بالصلاة فتقام، ثم آمر رجلا فيصلي بالناس، ثم أنطلق معي برجال معهم حزم من حطب إلى قوم لا يشهدون الصلاة فأحرق عليهم بيوتهم بالنار.»"

(کتاب الصلاۃ،باب تشدیدترک الجماۃ،214/1،رقم،548،)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الجماعة سنة مؤكدة. كذا في المتون والخلاصة والمحيط ومحيط السرخسي وفي الغاية قال عامة مشايخنا: إنها واجبة وفي المفيد وتسميتها سنة لوجوبها بالسنة وفي البدائع تجب على الرجال العقلاء البالغين الأحرار القادرين على الصلاة بالجماعة من غير حرج، وإذا فاتته الجماعة لا يجب  عليه الطلب في مسجد آخر بلا خلاف بين أصحابنا لكن إن أتى مسجدا آخر ليصلي بهم مع الجماعة فحسن وإن صلى في مسجد حيه فحسن وذكر القدوري أنه يجمع في أهله ويصلي بهم وذكر شمس الأئمة الأولى في زماننا إذا لم يدخل مسجد حيه أن يتبع الجماعات وإن دخله صلى فيه.

 وتسقط الجماعة بالأعذار حتى لا تجب على المريض والمقعد والزمن ومقطوع اليد والرجل من خلاف ومقطوع الرجل والمفلوج الذي لا يستطيع المشي والشيخ الكبير العاجز والأعمى عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - والصحيح أنها تسقط بالمطر والطين والبرد الشديد والظلمة الشديدة. كذا في التبيين وتسقط بالريح في الليلة المظلمة وأما بالنهار فليست الريح عذرا وكذا إذا كان يدافع الأخبثين أو أحدهما أو كان إذا خرج يخاف أن يحبسه غريمه في الدين أو يريد سفرا وأقيمت الصلاة فيخشى أن تفوته القافلة أو كان قيما لمريض أو يخاف ضياع ماله وكذا إذا حضر العشاء وأقيمت صلاته ونفسه تتوق إليه."

(کتاب الصلاۃ،الفصل الاول فی الجماعۃ،83،84/1،ط،دار الفکر)

فتاوي شامي ميں  ہے :

"فلا تجب على مريض ومقعد وزمن ومقطوع يد ورجل من خلاف) أو رجل فقط، ذكره الحدادي (ومفلوج وشيخ كبير عاجز وأعمى) وإن وجد قائدا (ولا على من حال بينه وبينها مطر وطين) ...قوله (ولا على من حال بينه وبينها مطر وطين) أشار بالحيلولة إلى أن المراد المطر الكثير كما قيده به في صلاة الجمعة. وكذا الطين وفي الحلية، وعن أبي يوسف: سألت أبا حنيفة عن الجماعة في طين وردغة، فقال: لا أحب تركها. وقال محمد في الموطأ: الحديث رخصة، يعني قوله صلى الله عليه وسلم «إذا ابتلت النعال فالصلاة ‌في ‌الرحال."

(کتاب الصلاۃ ،باب الامامۃ،555/1،ط،دار الفکر)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"مسجد قریب موجود ہو اور پھر وہاں کی جماعت بلا عذر ترک کرکے مکان پر کوئی شحص اپنی نماز پڑھ لے تو اگرچہ فرض ادا ہوجاتا ہے، مگر یہ بہت بڑی محرومی ہے، حدیث پاک میں ہے:"مسجد کے قریب رہنے کی والے نماز نہیں ہوتی مگر صرف مسجد میں۔اگر مسجد میں جاکر معلوم ہوا کہ جماعت ہوچکی ہے تو اپنے مکان پر اہل وعیال کو لے کر جماعت کرلی جائے، مسجد کی جماعت کا مستقلاً ترک کرنا گناہ ہے۔"

(فتاویٰ محمودیہ:6/417،مکتبہ شیخ الاسلام، دیوبند)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101453

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں