بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ریٹائزمنٹ کے بعد بینک سے ملنے والی رقم سے کاروبار شروع کرنا اور اس کاروبار کا حکم


سوال

ایک شخص نے بنک میں تقریبا 27 سال ملازمت کی اور وہ بنک بھی اسلامی نہیں تھا۔ بنک نے ریٹائرمنٹ پر اسے کچھ پیسے دیے اور اب وہ انہی پیسوں سے کاروبار چلا رہا ہے اور کاروبار چلاتے ہوئے 21 سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ پوچھنا یہ تھا کہ اب اس کا کاروبار کس زمرے میں آئے گا۔ آیا اس کی آمدن ٹھیک ہے ؟ اگر آمدن درست نہیں تو اب اسے کیا کرنا چاہیئے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب پیسے بینک سے ملے تھے تو  مذکورہ شخص کے لیے ان پیسوں کا استعمال جائز نہیں تھا؛لہٰذا مذکورہ پیسوں سے جو کاروبار شروع کیا وہ بھی جائز  نہ تھا،اگر چہ اس سے جائز کاروبار شروع کیا ہو،تاہم اب  اگر وہ  توبہ تائب ہوکر   اپنے کاروبار کو حلال کرنا چاہتا ہے تواس کا طریقہ یہ ہے کہ  بینک کی طرف سے ملنے والی جتنی رقم سے کاروبار شروع کیا تھا اتنی رقم ثواب کی نیت کے بغیر کسی مستحق زکاۃ کو صدقہ کردے تو  ایسی صورت میں اس کا کاروبار حلال ہوجائے گا اور اس سے گزشتہ حاصل شدہ آمدنی بھی حلال  شمار ہوگی ۔

 الاختيار لتعليل المختار  میں ہے:

"والملك الخبيث سبيله التصدق به، ولو صرفه في حاجة نفسه جاز. ثم إن كان غنيا تصدق بمثله، وإن كان فقيرا لا يتصدق."

(کتاب الغصب،3/ 61،ط:مطبعة الحلبی)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال: رجل اكتسب مالا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم. قال أبو نصر: يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول، وإليه ذهب الفقيه أبو الليث، لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير: إذا غصب ألفا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح. وقال الكرخي: في الوجه الأول والثاني لا يطيب، وفي الثلاث الأخيرة يطيب، وقال أبو بكر: لا يطيب في الكل، لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس اهـ."

(كتاب البيوع،مطلب إذا اكتسب حراما ثم اشترى فهو على خمسة أوجه،5/ 235،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101095

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں