اگر کوئی شخص آپ سے پیسے لے کر آپ کو سرکاری نوکری دلائے، پھر آپ صحیح طریقے سے اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتے ہیں تو اس کا تنخواہ لینا حلال ہوگا یا نہیں؟
صورت مسئولہ میں اگر ملازمت کسی جائز کام کی ہے تو صحیح طور پر کام انجام دینے کے بعد اس کی تنخواہ حلال ہے،تاہم اس کے لیے رشوت دینے میں تفصیل یہ ہےکہ اگروہ میرٹ پر پورا اترتا تھا اور سب سے زیادہ اہل تھا ،اس کے باوجود اسے نوکری نہیں دی جارہی تھی اور اس سے رشوت کا مطالبہ کیا جارہا تھا تو اس کے لیے رشوت دینے کی گنجائش تھی،لیکن رشوت لینے والوں کے لیےرشوت لینا جائز نہیں تھا،اور اگروہ میرٹ پرپورا نہیں اترتا تھا محض اہل لوگوں کو چھوڑ کر نوکری حاصل کرنے لیے رشوت دی تو رشوت دینے اور لینے کا گناہ دونوں کو ملے گا ۔
سنن الترمذی میں ہے:
"عن أبي سلمة، عن عبد الله بن عمرو قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي»: هذا حديث حسن صحيح."
(ابواب الاحكام،باب ماجاء في الراشي والمرتشي ج:6،ص:315،ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي)
فتاوی شامی میں ہے:
"ما يدفع لدفع الخوف من المدفوع إليه على نفسه أو ماله حلال للدافع حرام على الآخذ؛ لأن دفع الضرر عن المسلم واجب ولا يجوز أخذ المال ليفعل الواجب."
(کتاب القضاء،مطلب فی الکلام علی الرشوۃ ج:5،ص:362،ط:سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"(أما تفسيرها شرعا) فهي عقد على المنافع بعوض، كذا في الهداية.
(وأما) (ركنها) فالإيجاب والقبول بالألفاظ الموضوعة في عقد الإجارة."
(كتاب الإجارة،الباب الاول في تفسير الإجارة الخ ج:4،ص:409،ط:رشيديه)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
"سوال:۔علیم الدین نے بہت رشوت دے کر سرکاری ملازمت حاصل کی،اب اس ملازمت سے جو روپیہ کمایا ہے وہ جائز ہے یا نہیں؟
جواب:۔اگر ملازمت کا کام جائز ہے تو اس ملازمت کی آمدنی،تنخواہ بھی جائز ہے،ابتداءً اگر ملازمت حاصل کرنے کے لیے رشوت دی تو اس کی وجہ سے اس ملازمت کی آمدنی جو کہ درحقیقت خدمت ومحنت کا معاوضہ ہے،ناجائز نہیں،رشوت کا گناہ اس آمدنی تک نہیں پہنچا۔فقط واللہ اعلم"
(باب الرشوۃ ج:24،ص:226،ط:جامعہ فاروقیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144307200068
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن