بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رشوت سے ڈرائیونگ لائسنس کا حصول اور اس سے حاصل ہونے والی نوکری کا حکم


سوال

 اگر کوئی شخص پیسے دے کر ڈرائیونگ لائسنس بنوائے اور اس لائسنس پر  کوئی نوکری لگ جائے تو کیا ایسی نوکری کی آمدنی حلال ہے یا حرام؟ از راہِ کرم رہنمائی فرمائیں۔

جواب

رشوت لینے اور دینے والے پر حضورِ اکرم ﷺ نے لعنت  فرمائی ہے، چناں چہ رشوت لینا اور دینا دونوں ناجائز ہیں،اس لیے رشوت دینے سے بچنا واجب ہے، لہذا  رشوت دیے بغیر لائسنس بنانا ممکن ہو تو رشوت دینا جائز نہیں ہوگا ۔ اور  گاڑی چلانے کی مطلوبہ اہلیت کے بغیر یا حکومت کی طرف سے ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کے لیے مقرر کیے گئے قانونی تقاضوں (ٹیسٹ وغیرہ) کو مکمل کیے بغیرمحض رشوت کی بنیاد پر  ڈرائیونگ لائسنس (Driving License)  حاصل کرنا بھی ناجائز ہے۔

البتہ اگر کوئی شخص   گاڑی چلانے  کی مطلوبہ اہلیت بھی رکھتا ہو اور حکومت کی طرف سے ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کے لیے مقرر کیے گئے قانونی تقاضوں (ٹیسٹ وغیرہ) کو  بھی پورا کر چکا ہو، لیکن اس کے باوجود  متعلقہ ادارہ  یا لوگ رشوت کے بغیر اسے ڈرائیونگ لائسنس (Driving License)  دینے پر راضی نہ ہوں اورناحق رکاوٹ پیدا کریں تو پھر بھی اسے چاہیے کہ  وہ اپنی پوری کوشش کرے کہ رشوت دیے بغیر کسی طرح (مثلاً حکامِ بالا کے علم میں لاکر یا متعلقہ ادارے میں کوئی واقفیت نکال کر) اسے  ڈرائیونگ لائسنس (Driving License)   مل جائے،اور جب تک ڈرائیونگ لائسنس نہ ملے اس وقت تک صبر کرے اور صلاۃ الحاجۃ  پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے مسئلہ حل ہونے کی دعا مانگتا رہے، لیکن اگر ڈرائیونگ لائسنس کی شدید ضرورت ہونے اور  کوئی دوسرا متبادل راستہ نہ ہونے کی بنا پر اسے ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کے لیے مجبوراً  رشوت دینی ہی پڑے تو  وہ گناہ گار نہ ہوگا، کیوں کہ اپنے جائز حق کی وصولی کے لیے اگر مجبوراً رشوت دی جائے تو اس پر رشوت دینے کا گناہ نہیں ملتا، البتہ رشوت لینے والے شخص کے حق میں رشوت کی وہ رقم ناجائز ہی رہے گی اور اسے اس رشوت لینے کا سخت گناہ ملے گا۔

جہاں تک رشوت دے کر بنوائے گئے لائسنس پر نوکری لگنے کا تعلق ہے تو  اس سے  نوکری پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور نوکری کی آمدنی شرعا حلال ہوگی، بشرط یہ کہ وہ قانوناً اس کا اہل ہو۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ومنها أن يكون مقدور الاستيفاء - حقيقة أو شرعا فلا يجوز استئجار الآبق ولا الاستئجار على المعاصي؛ لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعا. ومنها أن لا يكون العمل المستأجر له فرضا ولا واجبا على الأجير قبل الإجارة فإن كان فرضا أو واجبا قبلها لم يصح."

(کتاب الاجارۃ ، باب اول، ج نمبر ۴ ،ص نمبر ۴۱۱،دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن  نفسه وماله ولاستخراج حق له ليس برشوة يعني في حق الدافع."

 (6/ 423،  کتاب الحظر والإباحة، فصل في البیع، ط: سعید)

مرقاة المفاتيح  میں ہے:

"وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما، قال: «لعن رسول الله ‌الراشي والمرتشي» رواه أبو داود، وابن ماجه."

ــ (وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما) : بالواو (قال: «لعن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ‌الراشي والمرتشي» ) : أي: معطي الرشوة وآخذها، وهى الوصلة إلى الحاجة بالمصانعة."

(کتاب الامارۃ و القضاء، باب رزق الولاۃ و ہدایاہم ج نمبر ۶ ص نمبر ۲۴۳۷،دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100233

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں