بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رشوت کے رواج کی صورت میں پراپرٹی کا کام کرنا


سوال

پراپرٹی  کے کام  میں ہم کو پتا  ہے کہ اس میں تقریباً رشوت لي اور دی  جاتى ہے، تو  کیا اس کے باوجود یہ  کام کرنا  جائز  ہے؟

جواب

پراپرٹی  ڈیلنگ   (مکانات  وغیرہ   کی خریدوفروخت  میں ایجنٹ اور بروکری )کا کام کرنا جائز ہے  اور  بروکر کے  لیے بروکری کی اجرت لینا جائز ہے، بشرطیکہ جس کام پر کمیشن لیا جا رہا ہے وہ کام فی نفسہ جائز ہو، کام بھی متعین ہو، کمیشن ایجنٹ واقعی کوئی معتد بہ عمل انجام دے اور کمیشن جانبین کی رضامندی سے  بلاکسی ابہام کے  متعین ہو۔  اور ایجنٹ  کسی  معاملے میں خود خریدار  یا فروخت کنندہ ہو تو  بروکری نہ لے۔  نیز طرفین کی جانب سے جو معاوضہ مقرر کر لیا جائے وہ درست ہے، خواہ وہ مارکیٹ ریٹ ہو یا کچھ اور ہو۔

نیز رشوت  لینے  اور  دینے  والے  پر   چوں کہ حضورِ  اکرم  ﷺ  نے  لعنت  فرمائی ہے، چناں چہ رشوت لینا اور دینا دونوں ناجائز ہیں،  اس  لیے حتی  الامکان  رشوت  دینے  سے  بچنا بھی  واجب ہے، البتہ اگر کوئی  جائز  کام تمام قانونی تقاضوں کو پورا کرنے اور حق ثابت ہونےکے باوجود صرف رشوت نہ دینے کی وجہ سے  نہ ہورہا ہو تو ایسی صورت میں حق دار  شخص کو چاہیے  اولاً وہ اپنی پوری کوشش کرے کہ رشوت دیے  بغیر کسی طرح (مثلاً حکامِ بالا کے علم میں لاکر یا متعلقہ ادارے میں کوئی واقفیت نکال کر)   کسی طرح اس کا کام ہوجائے،اور جب تک کام نہ ہو  اس وقت تک صبر کرے اور صلاۃ الحاجۃ پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے مسئلہ حل ہونے کی دعا مانگتا رہے، لیکن اگر شدید ضرورت ہو اور  کوئی دوسرا متبادل راستہ نہ ہو تو  اپنے جائز ثابت شدہ حق کے حصول کے  لیے مجبوراً  رشوت دینے کی صورت میں  دینے والا گناہ گار نہ ہوگا، البتہ رشوت لینے والے شخص کے حق میں رشوت کی وہ رقم ناجائز ہی رہے گی اور اسے اس رشوت لینے کا سخت گناہ ملے گا۔ نیز یہ بھی واضح رہے کہ جو حق ابھی تک ثابت نہ ہو رشوت دے کر اسے حاصل کرنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔ 

بہرحال  اگر پراپرٹی کے کام میں اگرچہ  معاشرے میں رشوت کا لین دین بہت رائج ہو، اس کے باوجود رشوت  دینے سے (چاہے  وہ رشوت  دینابامر مجبوری جائز کام کے لیے ہو ) حتی الامکان  بچتے  ہوئے پراپرٹی کا کام کیا جاسکتا ہے، لیکن رشوت لینے کی قطعًا اجازت نہیں ہوگی۔

 سنن أبی داود  میں ہے:

’’عن أبي سلمة، عن عبد الله بن عمرو، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي»‘‘.

  (3/ 300،کتاب الأقضیة، باب في کراهیة الرشوة، رقم الحدیث: 3580،ط: المکتبة العصریة)

فتاوی شامی میں ہے:

’’دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن  نفسه وماله ولاستخراج حق له ليس برشوة يعني في حق الدافع اهـ ‘‘

(6/ 423،  کتاب الحظر والإباحة، فصل في البیع، ط: سعید)

مرقاة المفاتیح میں ہے:

"(وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما) : بالواو (قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي» ) : أي: معطي الرشوة وآخذها، وهي الوصلة إلى الحاجة بالمصانعة، وأصله من الرشاء الذي يتوصل به إلى الماء، قيل: الرشوة ما يعطى لإبطال حق، أو لإحقاق باطل، أما إذا أعطى ليتوصل به إلى حق، أو ليدفع به عن نفسه ظلماً فلا بأس به، وكذا الآخذ إذا أخذ ليسعى في إصابة صاحب الحق فلا بأس به، لكن هذا ينبغي أن يكون في غير القضاة والولاة؛ لأن السعي في إصابة الحق إلى مستحقه، ودفع الظالم عن المظلوم واجب عليهم، فلايجوز لهم الأخذ عليه".

(کتاب الأمارة والقضاء، باب رزق الولاة وهدایاهم، الفصل الثاني،ج:۷ ؍۲۹۵ ،ط:دارالکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200373

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں