بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رشوت دینے کے لیے ملی ہوئی رقم کا حکم


سوال

اگر ایک آدمی "الف" سرکاری زمین کو جعلسازی سے اپنے نام کروانے کے  لیے دوسرے شخص "ب" کو کہتا ہے کہ تم مجھ سے رقم لے کر سرکاری افسر کو رشوت کے طور پر دے کر سرکاری زمین میرے نام کروا دو،  "ب" پہلے تو منع کرتا ہے اور جب وہ اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ "الف" باز نہیں آئے گا تو وہ رقم لے کر اپنے پاس رکھ لیتا ہے  جب کہ اس کی رشوت دینے کی نہ تو نیت ہوتی ہے اور نہ ہی وہ کسی افسر کو اس کی ادائیگی کرتا ہے،  پہلا آدمی کسی اور شخص کے ذریعہ رشوت دے کر جعلسازی سے ایسی  زمین اپنے نام کروا لیتا ہے،  جس پر اس کا کوئی قانونی یا شرعی حق نہیں ۔   اب اس بابت رہنمائی فرمائیں کہ جو رقم "الف" نے "ب" کو بطور رشوت سرکاری افسر کو دینے کے لیے دی تھی، "ب" کو اس رقم کا کیا کرنا چاہیے؟ اور کیا وہ یہ رقم بجائے "الف" کو واپس کرنے کے کسی فلاحی ادارہ یا مدرسہ وغیرہ کو دے سکتا ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  اگر "ب" کو   مذکورہ  رقم  سرکاری افسر تک پہنچانے کا محض  وکیل بنایا گیا تھا ، تو (اگرچہ یہ  ایک ناجائز کام کی وکالت تھی،  اور "ب"نے دیانت سے کام لیتے ہوئے وہ ناجائز کام انجام نہیں دیا،  لیکن  بہرحال)  یہ رقم "ب" کے  پاس "الف" کی  امانت ہے، جو اس پر "الف" کو لوٹانا لازم ہے، اس کو "الف" کی اجازت کے بغیر صدقہ کرنا جائز نہیں۔

اور اگر "ب" کو بھی مذکورہ رقم  "الف" کی   طرف سے رشوت  کے طور پر دی گئی تھی تو  بھی اس کو مالک"الف" کو  واپس کرنا ضروری ہے۔

"المبسوط" میں ہے:

"والمدفوع إليه مؤتمن؛ لأنه قبض الدنانير بحكم الوكالة، والوكيل أمين فيما دفعه الموكل إليه من ماله."

(المبسوط للسرخسي-كتاب الصرف-باب القرض والصرف فيه- صفحة -40)

"بدائع" میں ہے:

"ويتعلق بكونها أمانة أحكام: منها: وجوب الرد عند طلب المالك، لقوله تعالى - جل شأنه -: {إن الله يأمركم أن تؤدوا الأمانات إلى أهلها} [ النساء: 58] 

(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع-كتاب الوديعة-فصل في بيان حال الوديعة- صفحة -210، ط: دار الکتب العلمیہ)

''فتاوی شامی'' میں ہے:

"والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه".

(5/99،مَطْلَبٌ فِيمَنْ وَرِثَ مَالًا حَرَامًا، ط: سعید)   

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200683

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں