بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رشوت دے کر ووٹ لینا اور کونسلر بننا


سوال

ہمارے ویلج کونسل میں 31/3/2022 کو بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے ، اس  انتخابات  میں مختلف امیدواروں نے ووٹرز حضرات کو  آزادانہ انتخاب کے بجائے روپوں کی لالچ دی ، ووٹ کے لیے باقاعدہ قیمت مقرر ہوئی، مختلف امیدواروں نے ووٹر حضرات کو ایک ہزار -/1000 روپیہ ، دوہزار-/2000  تین ہزار-/3000 اور پانچ ہزار -/5000 روپیہ کی بولی کے لیے ووٹ پولنگ اسٹیشن  سے باہر لانے کا کہا گیا ، اور ووٹر حضرات نے طے شدہ معاہدہ کے تحت مختلف کیٹیگریز کے ووٹ اسٹیشن سے باہر لاکر مذکورہ رقم ایک ہزار ، دو ہزار ، تین ہزاراور پانچ ہزار وصول کرکے ووٹ  پرچی مختلف امیدواروں کو دیے ہیں ، آیا دینِ مبین  کی رو سے یہ جائز ہے؟ اور آیا کیا ووٹ کی بیع سے منتخب اس کونسل کی شرعی حیثیت کیا ہے اور کیا اس کونسلر کو امور کونسل چلانے کا حق ہے؟ 

جواب

 ووٹ جمہوری نظام میں رائے شماری کے عمل کا نام ہے، جس کا  مقصد ملکی نظام اور عوامی نمائندگی کے لیے مناسب نمائندہ کا انتخاب کرنا ہے، اگر کوئی اس رائے کے آزادانہ استعمال کے بجائے کسی اور طریقہ یا جبر سے رائے تبدیل کرانے کی کوشش کرے یا کرانے کا حربہ استعمال کرے اور اس کے  لیے روپیہ پیسہ دےتو یہ رشوت کے زمرے میں آتا ہے، لہذا   کسی بھی نام سے  کوئی روپیہ یا کوئی مال لے کر کسی کو ووٹ دینا یا دلوانا  یا کسی کے  لیے راہ  ہموار کروانا ناجائز ہے  اور  یہ رقم لینا اور اس کی بنیاد پر ووٹ دینا دونوں حرام ہیں اور رشوت دے کر کونسلر بننا بھی ناجائز ہے؛  اس لیے کہ رشوت لینے اور دینے والے پر حضورِ اکرم ﷺ نے لعنت فرمائی ہے،  پس اگر کونسلر متعلقہ امور صحیح طرح انجام دے  تو  اس کو کونسل چلانے کا حق ہوگا اور اس کی  تنخواہ حلال ہوگی، تاہم رشوت دینے پر اللہ تعالی سے توبہ و استغفار کرتا رہے، لیکن اگر اس طرح سےمنتخب شدہ کونسلر میں اہلیت نہ ہو اور وہ متعلقہ امور کی انجام دہی کے قابل نہ ہو تو  پھر اس کو کونسل چلانے کا حق نہیں ہوگا،  بلکہ اس کے بجائے کسی اہل  شخص کا انتخاب کرکے معاملات اس کے سپرد کرنا ضروری ہوگا۔

الدر مع الرد  میں ہے:

"وفي المصباح الرشوة بالكسر ما يعطيه الشخص الحاكم وغيره ليحكم له أو يحمله على ما يريد."

(ج:5، ص:362، ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(أما تفسيرها شرعا) فهي عقد على المنافع بعوض، كذا في الهداية.

(وأما) (ركنها) فالإيجاب والقبول بالألفاظ الموضوعة في عقد الإجارة."

(كتاب الإجارة،الباب الاول في تفسير الإجارة... الخ، ج:4،ص:409،ط:رشیدیہ)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال:علیم الدین نے بہت رشوت دے کر سرکاری ملازمت حاصل کی،اب اس ملازمت سے جو روپیہ کمایا ہے وہ جائز ہے یا نہیں؟

جواب:اگر ملازمت کا  کام جائز ہے تو اس ملازمت  کی آمدنی،تنخواہ بھی جائز ہے،ابتداءً اگر ملازمت حاصل کرنے کے لیے رشوت دی تو اس کی وجہ سے اس ملازمت کی آمدنی جو کہ درحقیقت خدمت ومحنت  کا معاوضہ ہے،ناجائز نہیں،رشوت کا گناہ اس آمدنی تک نہیں پہنچا۔فقط واللہ اعلم"

(باب الرشوۃ ج:24،ص:226،ط:جامعہ فاروقیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100510

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں