ہمارے لوگ سعودی عرب جاکر وہاں مزدوری کرتےہیں،بعض مزدوری ڈرائیونگ کی صورت میں ہوتی ہے،جب کہ ڈرائیونگ کے لیے لائسنس کاہوناضروری ہے،لیکن اس لائسنس کےحصول کا معروف طریقہ وہ ہوتا ہے، جو حکومت کی طرف سےکچھ اصولوں کےساتھ طے ہوا ہوتاہے،لیکن بعض لوگ پیسے دے کر لائسنس وصول کرتے ہیں، اس دوسری صورت میـں اگرچہ رشوت کادینالازم آتاہے،لیکن رشوت سے لائسنس وصول کرنے والے بھی اُن قانونی لائسنس والوں کی طرح ماہرہوتےہیں،اب پوچھنایہ ہےکہ:حکومت کےاس طرح کےقوانین کی پاسداری لازم ہوتی ہے؟اورکیامذکورہ صورت میں اس جعلی لائسنس کےلیےجورقم مجبوری کی وجہ سےدی جاتی ہے،وہ رشوت کےزمرہ میں آتی ہے؟
نوٹ:حکومت نے ڈرائیونگ کے ساتھ کمپیوٹر کا سیکھنا بھی ضروری شمار کیا ہے،جب کہ ہمارے لوگوں کو کمپیوٹر بالکل نہیـــــں آتا ہے۔
حکومت عوام کی مصلحت کی خاطرجواصول وقوانین بناتی ہے،اس کی پاسداری کرنالازم ہے؛لہذامذکورہ صورت میں لائسنس کےلیےحکومت کاجوبھی طریقہ کاراورجوبھی قوانین ہے،اس کوچھوڑکر،کچھ پیسےدےکر،لائسنس بنانادرست نہیں ہے،اوردی گئی رقم رشوت کےزمرہ میں آکر،رشوت لینےاوردینےوالے،دونوں کےلیےباعثِ لعنت ہے،جس سےہرمسلمان کےلیے بچناضروری ہے،باقی ڈرائیونگ پر جو تنخواہ ملے گی وہ حلال ہے۔
مرقاة المفاتيح میں ہے:
"(وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما) : بالواو (قال: «لعن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - الراشي والمرتشي» ) : أي: معطي الرشوة وآخذها، وهى الوصلة إلى الحاجة بالمصانعة."
(کتاب الإمارۃ و القضاء، باب رزق الولاۃ و هدایاهم،۶/ ۲۴۳۷،ط:دار الفکر)
حاشيةابن عابدين میں ہے:
"وفي شرح الجواهر: تجب إطاعته فيما أباحه الشرع، وهو ما يعود نفعه على العامة."
(كتاب الأشربة،٦/٤٦٠ ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144411100351
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن