بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حرام آمدن والے شخص کی ضیافت میں شرکت نہ کرنے سے اگر وہ ناراض ہو تو کیا حکم ؟


سوال

 ہمارے بہت سے  قریبی رشتہ دار اور دوست  ایسے ہیں جن کا ذریعہ آمدن   حرام ہے، ہمیں  ان کی خوشی غمی  کی تقریبات میں انتہائی مشکلات کاسامنا رہتا ہے، اگر ان تقریبات میں شرکت نہیں کرتے تو پھر بھی   خفاہوتے ہیں، اور  کبھی تو معاشرتی بائیکاٹ کے دھمکیاں دیتے ہیں،  اور اگر تقریب میں شرکت کریں تو پھر کھانا کھانے کی التجاء کرتے ہیں، اور نہ کھانے پر  ناراض ہوتے ہیں، ایسی خاندانوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہیں، لہذا سائل یہ سوال کرتا ہے کہ شریعت مطہرہ کے حوالے سے ہم ان لوگوں کے ساتھ معاشرتی معاملات کس طرح نبھائیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتاً آپ کے اقرباء اور دوستوں کا ذریعۂ آمدن حرام ہے، اور وہ علی الاعلان حرام کمائی کرتے ہیں، اور اس کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں ،وہ اگر اسی حرام آمدنی سے دعوت کا انتظام کرتے ہیں تو ایسی دعوتوں میں شرکت کرنا  جائز نہیں۔

ایسے لوگوں سے کہا جائے کہ کسی سے حلال رقم قرض لے کردعوت کا انتظام کریں تاکہ سب لوگ شریک ہوسکیں ،اگر وہ اس پر عمل کرتے ہیں تو دعوت میں شرکت کریں ورنہ نہ کریں ،غرض  کہ ان کو حکمت کے ساتھ شرعی مسئلہ سمجھا دیں ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أهدى إلى رجل شيئا أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لا يقبل الهدية، ولا يأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع. ... لا يجيب دعوة الفاسق المعلن ليعلم أنه غير راض بفسقه، وكذا دعوة من كان غالب ماله من حرام ما لم يخبر أنه حلال وبالعكس يجيب ما لم يتبين عنده أنه حرام، كذا في التمرتاشي. ... آكل الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لا يقبل، ولا يأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالا لا بأس بقبول هديته والأكل منها، كذا في الملتقط."

 ( كتاب الكراهية، الباب الثاني عشر في الهدايا والضيافات، ٥ / ٣٤٢ - ٣٤٣، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100576

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں