بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رشتے داروں کا اَنَس کو اَنَّس پکارنا


سوال

میں نے پانچ سال پہلے اپنے بیٹے کا نام انس رکھا،  میرے رشتہ دار نام پکارتے وقت نون پر شدہ کرتے ہیں ۔ اننس / ان نس پڑھتے ہیں،  کیا یہ بھی صحیح ہے ؟

جواب

واضح ہو کہ اگر کسی شخص کا نام پکارتے ہوئے بگڑ جائے اور وہ بگڑا ہوا نام اس شخص کو برا لگتا ہو یا اس کا برا معنی ہو، تو اس طرح نام بگاڑنا ناجائز ہے۔ تاہم اگر نام پکارنے میں ایسی تبدیلی ہو جو برا نہ لگے اور نہ ہی اس کے معنی خراب ہوں، تو ایسی تبدیلی کے ساتھ نام پکار لیا جائے تو یہ صورت ناجائز نہیں ہے۔

صورتِ  مسئولہ میں اَنَّس (نون مشدد کے ساتھ) پکارنا ناجائز نہیں ہے۔ البتہ اگر اسے برا لگتا ہو تو قصدًا اس طرح نہیں پکارنا چاہیے۔

تاہم اگر رشتے دار صحیح تلفظ سے عاجز ہوں تو انہیں معذور سمجھنا چاہیے اور اس کا برا نہیں منانا چاہیے۔

تفسير الطبري  میں ہے:

"حدثنا ابن عبد الأعلى، قال: ثنا ابن ثور، عن معمر، قال: قال الحسن: كان اليهودي والنصراني يسلم، فيلقب فيقال له: يا يهودي، يا نصراني، فنهوا عن ذلك.

والذي هو أولى الأقوال في تأويل ذلك عندي بالصواب أن يقال: إن الله تعالى ذكره نهى المؤمنين أن يتنابزوا بالألقاب؛ والتنابز بالألقاب: هو دعاء المرء صاحبه بما يكرهه من اسم أو صفة، وعم الله بنهية ذلك، ولم يخصص به بعض الألقاب دون بعض، فغير جائز لأحد من المسلمين أن ينبز أخاه باسم يكرهه، أو صفة يكرهها."

(سورة الحجرات، آية 10، ج22، ص302، مؤسسة الرسالة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505100656

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں