کیا مرنے کے بعد رشتہ دار عزیز و اقارب ایک دوسرے کو مل سکیں گے؟ اسی طرح جنت میں بھی اکٹھے رہ سکیں گے؟ احادیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں!
صورتِ مسئولہ میں عالمِ برزخ میں مؤمن کی اپنے سے پہلے فوت شدہ مؤمنوں سے ملاقات کا ذکر احادیث میں ہے۔
سنن النسائي (4 / 8):
"عن أبي هريرة، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إذا حضر المؤمن أتته ملائكة الرحمة بحريرة بيضاء فيقولون: اخرجي راضية مرضيًّا عنك إلى روح الله، وريحان، ورب غير غضبان، فتخرج كأطيب ريح المسك، حتى أنه ليناوله بعضهم بعضًا، حتى يأتون به باب السماء فيقولون: ما أطيب هذه الريح التي جاءتكم من الأرض، فيأتون به أرواح المؤمنين فلهم أشد فرحًا به من أحدكم بغائبه يقدم عليه، فيسألونه: ماذا فعل فلان؟ ماذا فعل فلان؟ فيقولون: دعوه فإنه كان في غم الدنيا، فإذا قال: أما أتاكم؟ قالوا: ذهب به إلى أمه الهاوية، وإن الكافر إذا احتضر أتته ملائكة العذاب بمسح فيقولون: اخرجي ساخطةً مسخوطًا عليك إلى عذاب الله عز وجل، فتخرج كأنتن ريح جيفة، حتى يأتون به باب الأرض، فيقولون: ما أنتن هذه الريح حتى يأتون به أرواح الكفار."
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس وقت کوئی مومن بندہ مرنے کے قریب ہوتا ہے تو رحمت کے فرشتے سفید ریشمی کپڑا لے کر آتے ہیں اور ( روح سے) کہتے ہیں کہ نکل جاؤ ،تو اللہ سے رضامند ہے اور اللہ تعالیٰ تجھ سے رضامند ہے، اللہ تعالیٰ کی رحمت کی جانب اور اس کے رزق کی جانب اور اپنے پروردگار کی جانب جو کہ غضب ناک نہیں ہے ، پھر وہ روح اس طرح معطر حالت میں نکل جاتی ہے جس طریقہ سے عمدہ خوش بودار مشک، اور فرشتے ہاتھ در ہاتھ اسے اٹھاتے ہوئے آسمان کے دروازے پر لے جاتے ہیں تو (آسمان والے) فرشتے کہتے ہیں: کیا (عمدہ) خوش بو ہے جو کہ زمین سے آئی ہے، پھر اس کو اہل ایمان کی ارواح کے پاس لاتے ہیں، تو وہ ارواح خوش ہوتی ہیں اس سے زیادہ جو کہ تم کو کسی بچھڑے ہوئے شخص کی آمد سے ہوتی ہے، پھر وہ (پہلے سے موجود مؤمنین) اس (آنے والے) سے دریافت کرتے ہیں: فلاں آدمی نے کیا کیا؟ اور فلاں آدمی کا کیا ہوا؟ یعنی جس شخص کو وہ لوگ دنیا میں چھوڑ کر گئے تھے اب وہ کس طرح کے کام میں مشغول ہے؟ پھر (خود ہی ان میں سے چند) ارواح کہتی ہیں: ( ابھی ٹھہر جاؤ) اس کو چھوڑ دو، یہ دنیا کے غم میں مبتلا تھا، یہ روح کہتی ہے: کیا وہ شخص تم لوگوں کے پاس نہیں پہنچا؟ (وہ تو مرچکا تھا) تو اس پر وہ روحیں کہتی ہیں: (اس کا مطلب) وہ شخص تو جہنم میں گیا ہوگا۔ اور جس وقت کافر کی موت آتی ہے تو عذاب کے فرشتے ایک ٹکڑا کاٹ کر لے کر آتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ تو نکل کر باہر آجا (اور چل) اللہ کے عذاب کی طرف اس حال میں کہ تو اللہ تعالیٰ سے ناراض ہے اور تجھ سے اللہ تعالیٰ ناراض ہے، پھر وہ روح نکلتی ہے اس طرح سے کہ جس طرح سڑے ہوئے مردار کی بدبو ہوتی ہے، یہاں تک کہ زمین کے دروازے پر اس کو لاتے ہیں تو وہاں مامور فرشتے کہتے ہیں: کتنی (گندی) بدبو ہے!!! پھر اس کو کفار اور مشرکین کی ارواح میں لے جاتے ہیں۔
اور اہلِ جنت کے بارے میں قرآنِ پاک میں ارشاد ہے:
{ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُمْ مِنْ عَمَلِهِمْ مِنْ شَيْءٍ كُلُّ امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌ } [الطور: 21]
ترجمہ : اور جو لوگ یقین لائے اور ان کی راہ پر چلی ان کی اولاد ایمان سے، پہنچا دیا ہم نے ان تک ان کی اولاد کو، اور گھٹایا نہیں ہم نے ان سے ان کا کیا ذرا بھی، ہر آدمی اپنی کمائی میں پھنسا ہے۔
نیز جنت کے عمومی انعامات میں اس کا ذکر ہے کہ جو بات جنتی چاہے گا، اللہ اسے پورا کریں گے، اسی طرح آپ ﷺ نے فرمایا کہ انسان دنیا میں جس سے محبت رکھے گا آخرت میں اس کے ساتھ ہوگا؛ لہذا ایمان کی حالت میں مرنے والے رشتہ داروں اور اقرباء سے میل ملاقات کے لیے بھی جنت میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔
{نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ} [فصلت: 31]
ترجمه : ہم ہیں تمہارے رفیق دنیا اور آخرت میں اور تمہارے لیے وہاں ہے جو چاہے جی تمہارا اور تمہارے لیے وہاں ہے جو کچھ مانگو۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144212200156
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن