بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رشتہ پر رشتہ بھیجنے کی تفصیل


سوال

کسی لڑکی کا رشتہ ہو چکا ہو اور وہی لڑکی مجھے پسند ہے اور راستے میں چلتے اس کی حرکات و سکنات سے ایسا لگتا ہے کہ وہ مجھے پسند کرتی ہے تو  کیا میں رشتہ کر سکتا ہوں؟ اور رشتہ بھیج دیا تو کیا حکم ہوگا؟

جواب

ایسی خاتون جو نکاح یا عدت میں نہ ہو، اسے رشتہ کا پیغام بھیجنے کی مختلف صورتیں اور ان کا حکم مندرجہ ذیل  ہے:

1- اس کے رشتہ کی بات کسی اور جگہ چلی ہو اور اس نے اس رشتہ کے لیے رضامندی کا اظہار کردیا ہو (جس کو منگنی کہتے ہیں)، اس صورت میں اسے رشتہ بھیجنا ناجائز ہے۔

2- اس کے رشتہ کی بات نہ چلی ہو یا  کسی اور جگہ چلی ہو اور اس نے اسے رد کردیا ہو، اس صورت میں اسے رشتہ بھیجنا جائز ہے۔

3- اس کے رشتہ کی بات چل رہی ہو اور جہاں بات چل رہی ہو  خاتون کا رشتہ بھیجنے والوں کی طرف قلبی میلان واضح ہو، اس صورت میں رشتہ بھیجنا مکروہ ہے۔

4- اس کے رشتہ کی بات چل رہی ہو  اور جہاں بات چل رہی ہو اور خاتون کا رشتہ بھیجنے والوں کی طرف قلبی میلان واضح نہ ہو، اور لڑکی والوں کی طرف سے رشتے پر آمادگی ظاہر نہ کی گئی ہو، اس صورت میں رشتہ بھیجنا بلا کراہت جائز ہے۔

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ خاتون کی منگنی ہوچکی ہے تو  آپ کے لیے اسے رشتہ کا پیغام بھیجنا جائز نہیں ہے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (4 / 164):
"وعلم منه حرمة خطبة المنكوحة بالأولى، وتحرم تصريحًا وتعريضًا كما في البدائع، و قيد بالمعتدة؛ لأنّ الخالية عن نكاح وعدة تحل خطبتها تصريحًا وتعريضًا لجواز نكاحها، لكن بشرط أن لايخطبها غيره قبله، فإن خطبها فعلى ثلاثة أوجه:
إما أن تصرح بالرضا فتحرم، أو بالرد فتحل، أو تسكت فقولان للعلماء، ولم أر هذا التفصيل لأصحابنا، وأصله الحديث الصحيح: «لا يخطب أحدكم على خطبة أخيه» وقيدوه بأن لايأذن له".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 533):
"وأما الخالية فتخطب إذا لم يخطبها غيره، وترضى به، فلو سكتت فقولان (تحرم خطبتها)".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 533):
"(قوله: إذا لم يخطبها غيره وترضى به إلخ) نقله في البحر عن الشافعية، وقال: ولم أره لأصحابنا، وأصله الحديث الصحيح: «لا يخطب أحدكم على خطبة أخيه» وقيدوه بأن لا يأذن له اهـ أي بأن لا يأذن الخاطب الأول، وهو منقول عندنا، فقد قال الرملي: وفي الذخيرة كما «نهى صلى الله عليه وسلم عن الاستيام  على سوم الغير» نهى عن الخطبة على خطبة الغير والمراد من ذلك أن يركن قلب المرأة إلى خاطبها الأول، كذا في التتارخانية في باب الكراهية فافهم. اهـ. (قوله: فلو سكتت فقولان) أي للشافعية. قال الخير الرملي: وقولهم لاينسب إلى ساكت قول يقتضي ترجيح الجواز. اهـ.قلت: هذا ظاهر إذا لم يعلم ركون قلبها إلى الأول بقرائن الأحوال وإلا فيكون بمنزلة التصريح بالرضا".

البناية شرح الهداية (8 / 212):
"(محمل النهي في النكاح أيضا) ش: يعني إذا ركن قلب المرأة إلى الخاطب يكره خطبة غيره فإذا لم يركن فلايكره".
الهداية في شرح بداية المبتدي (3 / 53):
"قال عليه الصلاة والسلام: "لايستم الرجل على سوم أخيه ولايخطب على خطبة أخيه"؛ ولأن في ذلك إيحاشًا وإضرارًا، وهذا إذا تراضى المتعاقدان على مبلغ ثمنا في المساومة، فأما إذا لم يركن أحدهما إلى الآخر فهو بيع من يزيد ولا بأس به على ما نذكره، وما ذكرناه محمل النهي في النكاح أيضًا". فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144110200590

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں