بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رشتے کے عوض میں رشتہ، یا رشتے کے عوض میں پیسے مانگنے کا حکم


سوال

ہم افغان لوگوں کی روایت ہے کہ اپنی بہن ، بیٹی کا رشتہ دیتے وقت طالب سے بہن ، بیٹی کا رشتہ دینے کے عوض پیسوں کا یا بدلے میں طالب کی بہن ، بیٹی کا ہاتھ اپنے بھائی بیٹے کے لیے مانگتے ہیں، دونوں صورتوں، یعنی رشتے کے عوض میں رشتہ مانگنے یا رشتے کے عوض میں پیسے طلب کرنے کا شرعی حکم کیا ہوگا ؟

نوٹ ؛ رشتے کے عوض میں لڑکے والوں سے جو پیسے مانگے جاتے ہیں وہ لاکھوں میں ہوتے ہیں، جیسا کہ ہمارے قبیلے میں 10 سے 15 لاکھ پاکستانی روپے کا مطالبہ کیا جاتا ہے، اور یہ کہ یہ پیسے لڑکی کے مہر کے علاوہ ہوتے ہیں ۔

کچھ غیر افغان لوگ اسے اپنی بیٹی بیچنا شمار کرتے ہیں، حالاں کہ ایسا نہیں ہے؛ کیوں کہ جب کوئی چیز بیچ دی جائے تو اس کی ملکیت ساقط ہو جاتی ہے اور خریدنے والے کو خریدی ہوئی چیز پر پورا اختیار ہوتا ہے ، لیکن ہمارے ہاں بہن ، بیٹی کے رشتے کے عوض پیسے لینے کے باوجود اگر خاوند یا اس کے گھر والوں میں سے کوئی بھی لڑکی کو بلا وجہ ایک تھپڑ بھی مارے تو جرگے بٹھائے جاتے ہیں اور اس کی پوچھ گچھ ہوتی ہے، جس سے یہ واضح ہے کہ اسے بیچنا نہیں کہا جا سکتا (بڑے بزرگوں کے بقول کسی زمانے میں طالب کے گھر میں اپنی بہن، بیٹی کی عزت و حیثیت بنانے کی خاطر اس رسم یعنی پیسے لینے کی ابتداء ہوئی تھی اور آج تک یہ رسم چل رہی ہے، لیکن یہ بات کتنی مؤثق ہے اس کا کچھ پتا نہیں)،  خلاصہ یہ کہ بیٹی کا رشتہ دینے کے عوض میں پیسے لینا (جب کہ یہ بیچنا بھی شمار نہ کیا جا سکتا ہو اور مہر بھی نہ  ہو) شرعاً کیسا ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں نکاح صرف طبعی وشخصی ضرورت کی تکمیل ہی  نہیں،بلکہ عبادت ہے،  اس لیے اس میں شرعی اصولوں  کی  پاسداری  نہایت ضروری ہے، اور  کسی ناجائز رسم ورواج کے  تحت  اس کو مشکل ترین بنانا   احکام شریعت سے متصادم ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ۔

لہٰذا جن علاقوں میں یہ رواج ہے کہ لڑکی کے نکاح کے بدلے اس کے اولیاء،  لڑکے یا اس کے اولیاء سے مہر کے علاوہ رقم وصول کرتے ہیں اور وہ رقم لڑکی کو نہیں دی جاتی،  بلکہ لڑکی کے والدین خود رکھ لیتے ہیں، یا اس کے بدلے لڑکے والوں کی کسی لڑکی کا اپنے لیے یا اپنے خاندان کے کسی لڑکے کے لیے رشتہ طلب کرتے ہیں، توشرعاً یہ رسم درست نہیں؛ کیوں کہ نکاح کے بدلے نکاح کی شرط لگانا شرطِ فاسد ہے، اور لڑکے سے مہر کے علاوہ رقم کا مطالبہ کرنا رشوت ہے، نیز اس  رسم سے کئی معاشرتی خرابیاں بھی جنم لیتی ہیں، مثلاً ایسے معاشرے میں لڑکا بالغ ہونے کے بعد نکاح کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے بھی نکاح نہیں کرسکتا؛ کیوں کہ ابھی اس کے یا اس کے گھر والوں کے پاس اتنے روپے جمع نہیں ہوئے ہوتے جو دے کر وہ کسی جگہ رشتہ کرسکیں، اور ظاہر ہے اس  سے معاشرے میں گناہ کے رستے کھل جاتے ہیں، نیز رشتے کے بدلے رشتہ لینے کی صورت میں بھی بعض اوقات ایسے بے جوڑ رشتے وجود میں آتے ہیں، جو آگے چل کر یا تو دو گھرانوں کی تباہی کا باعث بنتے ہیں، یا پھر ساری زندگی   فریقین کلفت وبے کیفی کا شکار رہتے ہیں جس کا منفی اثر اُن کی اولاد پر بھی پڑتا ہے۔

بعض لوگ  اس رسمِ بد کی ناجائز آمدنی کو  "مہر" کا نام دے کر  محض حیلہ  کرتے ہیں کہ یہ مہر ہے اور بیٹی کی رضا مندی سے   ہمارے  لیے اس رقم کا استعمال جائز ہے،   درحقیقت یہ ایک افسوس ناک  حیلہ ہے  جس سے مقصود پیسے کا حصول ہے نہ کہ حق مہر کا تقرر، اگر  کہیں لڑکی اس زائد رقم کے لینے پر راضی بھی ہو جائے،  تب بھی شرعاً رشوت ہونے کی بنا پر یہ رقم لینا جائز نہیں ، اس کے لینے والے اس مال کے مالک نہیں بنتے، اور ان کو یہ پیسے واپس لوٹانا ضروری ہے، تاہم اس طرح کی شرائط لگانے سے فی نفسہ نکاح درست ہوجائے گا، اور شرط باطل ہوجائے گی ۔

البتہ  اگر کہیں پر لڑکے  کو بغیر پیسوں کے  رشتہ نہ ملتا ہو  تو ایسی صورت میں   بامر ِمجبوری مہر سے زیادہ رقم دے کر رشتہ طے کر نے سے امید  ہے   کہ وہ  گناہ میں شریک نہ ہوگا، لیکن اس صورت میں  بھی لینے والےبہر حال گناہ گار  ہوں گے، لہٰذا سائل کو چاہیے کہ وہ اس رسمِ بد کے خلاف اپنی قوم میں آواز اٹھائے، اور اپنے خاندان وبرادری والوں کو اس رواج کی شناعتیں وقباحتیں حکمتِ عملی کے ساتھ سمجھا کر اس رسم کو ختم کرنے کی کوشش کرے، ورنہ کم سے کم خود اس رسم کو برا جانتے ہوئے اس سے بچنے کی کوشش کرے۔

حدیثِ مبارک میں ارشاد ہے:

عن ابن عباس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خطب الناس في حجة الوداع، فذكر الحديث، وفيه: "لا ‌يحل ‌لامرئ ‌من ‌مال أخيه إلا ما أعطاه من طيب نفس، ولا تظلموا، ولا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض."

(السنن الكبرى للبيهقى، كتاب الغصب، ‌‌باب لا يملك أحد بالجناية شيئا جنى عليه إلا أن يشاء هو والمالك، ٦/ ١٦٠، ط: دارالكتب العلمية)

سنن ابن ماجہ میں ہے:

عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "إذا أتاكم من ترضون خلقه ودينه فزوجوه، إلا تفعلوه تكن فتنة في الأرض ‌وفساد ‌عريض."

(أبواب النكاح، باب الأكفاء، ٣/ ١٤١، ط: دارالرسالة العالمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(‌أخذ ‌أهل ‌المرأة شيئا عند التسليم فللزوج أن يسترده) لأنه رشوة.

وقال عليه في الرد: (قوله عند التسليم) أي بأن أبى أن يسلمها أخوها أو نحوه حتى يأخذ شيئا، وكذا لو أبى أن يزوجها فللزوج الاسترداد قائما أو هالكا لأنه رشوة بزازية. وفي الحاوي الزاهدي برمز الأسرار للعلامة نجم الدين: وإن أعطى إلى رجل شيئا لإصلاح مصالح المصاهرة إن كان من قوم الخطيبة أو غيرهم الذين يقدرون على الإصلاح والفساد وقال هو أجرة لك على الإصلاح لا يرجع وإن قال على عدم الفساد والسكوت يرجع لأنه رشوة، والأجرة إنما تكون في مقابلة العمل والسكوت ليس بعمل وإن لم يقل هو أجرة يرجع؛ وإن كان ممن يقدرون على ذلك، إن قال هو عطية أو أجرة لك على الذهاب والإياب أو الكلام أو الرسالة بيني وبينها لا يرجع، وإن لم يقل شيئا منها يكون هبة له الرجوع فيها إن لم يوجد ما يمنع الرجوع."

(كتاب النكاح، باب المهر، ٣/ ١٥٦، ط: سعيد)

وفيه أيضاً:

"‌الرشوة ‌لا ‌تملك بالقبض."

(كتاب الحظر والإباحة، ٦/ ٤٢٣، ط: سعيد)

وفيه أيضاً:

"(ولكن لا يبطل) ‌النكاح (‌بالشرط الفاسد و) إنما (يبطل الشرط دونه) يعني لو عقد مع شرط فاسد لم يبطل النكاح بل الشرط.

قال عليه في الرد: (قوله: مع الشرط فاسد) كما إذا قال تزوجتك على أن لا يكون لك مهر فيصح النكاح ويفسد الشرط ويجب مهر المثل."

(كتاب النكاح، فصل في المحرمات، ٣/ ٥٣، ط: سعيد)

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"ولو تزوج امرأة ‌على ‌أن ‌يهب ‌لأبيها ألف درهم فهذا الألف لا يكون مهرا ولا يجبر على أن يهب فلها مهر مثلها، وإن سلم الألف فهو للواهب وله أن يرجع فيها إن شاء."

(كتاب النكاح، الباب السابع في المهر، ١/ ٣٠٨، ط: دارالفكر)

وفيه أيضاً:

"ولو أخذ أهل المرأة شيئا عند التسليم فللزوج أن يسترده؛ لأنه رشوة، كذا في البحر الرائق."

(كتاب النكاح، الباب السابع في المهر، ١/ ٣٢٧، ط: دارالفكر)

کفایت المفتی میں ہے:

"(سوال) لڑکی کا نکاح اس شرط سے کرنا کہ لڑکا کچھ روپیہ سات سو یا ہزار دے، تو اس قسم کا روپیہ لینا جائز ہے یا نہیں اور یہ نکاح جائز ہے یا نہیں۔ روپیہ لینے والا اور دینے والا گناہ میں دونوں برابر ہیں یا کچھ فرق ہے، اور وہ روپیہ خیرات کرنے سے ثواب ملے گا یا نہیں؟ ایسے لوگوں کو کوئی برا  لفظ کہہ  سکتے ہیں یا نہیں؟

(جواب ١٦٤) لڑکی کے ولی کو لڑکے سے کچھ روپیہ علاوہ مہر کے لے کر نکاح کرنا رشوت ہے، اور رشوت لینا حرام ہے اور اس روپئے کو جو لڑکی کے ولی نے لڑکے سے لیا ہے بوجہ رشوت اور حرام ہونے کے کسی کارِ خیر میں صرف کرنا نہیں چاہیے۔ اس سے کوئی ثواب نہیں مل سکتا، بلکہ اسی کو واپس کردینا چاہیے جس سے لیا ہے۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں ان کو منع کرتے ہوئے زجراً سخت الفاظ مناسب طریقہ سے استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔"

(کتاب النکاح، چھٹا باب مہر، چڑھاوا وغیرہ، ٥/ ١٠٩،ط: دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101105

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں