بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1445ھ 16 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رشتہ داراوں میں کن عورتوں سے نکاح جائز ہے؟


سوال

شادی اپنے رشتہ داروں میں کس سے کر سکتے ہیں؟

جواب

جن عورتوں سے نکاح جائز نہیں انہیں 'محرَّمات' کہا جاتا ہے، اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے محرماتِ نکاح کی مکمل فہرست بیان کی ہے،ان محرمات کے علاوہ باقی عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے،خواہ رشتہ دار ہوں یا نہ ہوں،ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔

قرآن کریم میں  جو محرماتِ نکاح بیان کی گئی ہیں وہ چار طرح کی عورتیں ہیں:(1)محرمات نسب:(یعنی  وہ عورتیں جن سے نسبی تعلق کی وجہ سے نکاح کرنا حرام ہے) ان میں یہ عورتیں داخل ہیں،1:ماں(چاہے حقیقی ماں ہو یا سوتیلی، اس طرح نانی اور دادی)2:بیٹی (پوتی اور نواسی بھی)3:بہن (چاہے حقیقی ہو، یا سوتیلی یعنی  ماں شریک، یا باپ شریک ہو)4:پھوپھی (والد کی بہن، چاہے  سگی ہو یا سوتیلی)5:خالہ (ماں کی بہن چاہے سگی ہو یا سوتیلی)6:بھتیجی (بھائی کی بیٹی چاہے سگی ہویا سوتیلی)7:بھانجی (بہن کی بیٹی چاہے سگی ہو یا سوتیلی)۔

(2) محرمات نسب:جن سے دودھ  پینے کی وجہ سے نکاح کرنا حرام ہوتا ہے،وہ تمام عورتیں جو نسبی تعلق کی وجہ سے محرمات میں سے ہیں، وہ دودھ پینے (رضاعت) کی وجہ سے بھی محرم بن جاتی ہیں ( شرط یہ ہے کہ دودھ ڈھائی سال کی عمر سے پہلے پلایا  گیا ہو)،لہٰذا8:رضاعی ماں، 9:رضاعی بہن،10: رضاعی پھوپھی،11: رضاعی خالہ، 12:رضاعی بھتیجی اور13: رضاعی بھانجی سے نکاح نہیں ہو سکتا۔

(3)حرمت مصاہرت:(یعنی وہ عورتیں جن سے سسرالی رشتہ کی وجہ سے نکاح کرنا جائز نہیں)14:بیوی کی ماں (ساس)15:بیوی کی پہلے شوہر سے بیٹی ( لیکن اس شرط کے ساتھ بیوی سے صحبت کر چکا ہو، اگر صحبت سے پہلے ہی جدائیگی ہو جائے تو اس عورت کی بیٹی سے نکاح جائز ہے۔)16:بیٹے کی بیوی (بہو)۔

(4)جمع بین المحارم:(یعنی وہ دوعورتیں جن کو ایک  ساتھ نکاح میں رکھنا درست نہیں)17: دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں رکھنا ناجائز ہے۔ اسی طرح پھوپھی اور اس کی بھتیجی، اور خالہ اور اس کی بھانجی کو ایک ساتھ نکاح میں رکھنا درست نہیں ہے۔

ان کے علاوہ بھی کئی عورتیں ایسی ہیں جن سے  وقتی طور پر نکاح کرنا جائز نہیں،مثلاً بیوی کی بہن ،بھتیجی ،بھانجی ،خالہ،پھوپھی لیکن بیوی کی وفات کے بعد یا طلاق  کی صورت عدت گزر جانے کے بعد اس کی بہن (سالی) اور بھانجی ،بھتیجی وغیرہ سے نکاح کیا جاسکتا ہے،نیز رشتہ داروں میں سے خالہ زاد، چچا زاد ،پھو پھی زاد،اور ماموں زاد سے نکاح کرنا جائز ہے،لہذا نکاح کرنے سے پہلے کسی مستند مفتی صاحب سے تفصیل معلوم  کر لینی چاہیے۔

 ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"حُرِّمَتْ عَلَیْكُمْ اُمَّهٰتُكُمْ وَ بَنٰتُكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ وَ عَمّٰتُكُمْ وَ خٰلٰتُكُمْ وَ بَنٰتُ الْاَخِ وَ بَنٰتُ الْاُخْتِ وَ اُمَّهٰتُكُمُ الّٰتِیْۤ اَرْضَعْنَكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَ اُمَّهٰتُ نِسَآئِكُمْ وَ رَبَآئِبُكُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِكُمْ مِّنْ نِّسَآئِكُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَاِنْ لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ وَ حَلَآئِلُ اَبْنَآئِكُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْ وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاۙ."  (سورۃ النساء،آیت نمبر:23)

"وَّ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ كِتٰبَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْهُنَّ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ فَرِیْضَةً وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا تَرٰضَیْتُمْ بِهٖ مِنْۢ بَعْدِ الْفَرِیْضَةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا."  (سورۃ النساء،آیت نمبر:24)

ترجمہ:"تم پر حرام کی گئیں تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں، اور تمہاری بہنیں ،  اور تمہاری پھوپھیاں ، اور تمہاری خالائیں ، اور بھتیجیاں اور بھانجیاں ،اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہے (یعنی انا) اور تمہاری وہ بہنیں جو دودھ پینے کی وجہ سے ہیں ، اور تمہاری بیبیوں کی مائیں، اور تمہاری بیٹیوں کی بیٹیاں ، جو کہ تمہاری پرورش میں رہتی ہیں ان بیبیوں سے کہ جن کے ساتھ تم نے صحبت کی ہو ،اور اگر تم نے ان بیبیوں سے صحبت نہ کی ہو تو تم کو کوئی گناہ نہیں اور تمہارے ان بیٹوں کی بیبیاں جو کہ تمہاری نسل سے ہوں ، اور یہ کہ تم دو بہنوں کو (رضاعی ہوں یا نسبی) ایک ساتھ رکھو لیکن جو پہلے ہوچکا۔ بیشک اللہ تعالیٰ بڑے بخشنے والے بڑے رحمت والے ہیں۔

اور وہ عورتیں جو کہ شوہر والیاں ہیں مگر جو کہ تمہاری مملوک ہوجاویں اللہ تعالیٰ نے ان احکام کو تم پر فرض کردیا ہے ، اور ان (عورتوں) کے سوا ( اور عورتیں) تمہارے لئے حلال کی گئیں ہیں (یعنی یہ) کہ تم ان کو اپنے مالوں کے ذریعہ سے چاہو ، اس طرح سے کہ تم بیوی بناؤ صرف مستی ہی نکالنا نہ ہو ، پھر جس طریق سے تم ان عورتوں سے منتفع ہوئے ہو سو ان کو ان کے مہر دو جو کچھ مقرر ہوچکے ہیں اور مقرر ہوئے بعد بھی جس پر تم باہم رضامند ہوجاو ٴاس میں تم پر کوئی گناہ نہیں بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے جاننے والے ہیں بڑے حکمت والے ہیں۔"(بیان القرآن)

فتح القدیر میں ہے:

"وانتفاء محلية المرأة للنكاح شرعا بأسباب: الأول النسب، فيحرم على الإنسان فروعه وهم بناته وبنات أولاده وإن سفلن وأصوله وهم أمهاته وأمهات أمهاته وآبائه وإن علون، وفروع أبويه وإن نزلن، فتحرم بنات الإخوة والأخوات وبنات أولاد الإخوة والأخوات وإن نزلن، وفروع أجداده وجداته لبطن واحد، فلهذا تحرم العمات والخالات، وتحل بنات العمات والأعمام والخالات والأخوال. الثاني المصاهرة، يحرم بها فروع نسائه المدخول بهن وإن نزلن، وأمهات الزوجات وجداتهن بعقد صحيح وإن علون وإن لم يدخل بالزوجات، وتحرم موطوءات آبائه وأجداده وإن علوا ولو بزنا والمعقودات لهم عليهن بعقد صحيح، وتحرم موطوءات أبنائه وأبناء أولاده وإن سفلوا ولو بزنا، والمعقودات لهم عليهن بعقد صحيح. الثالث الرضاع، يحرم كالنسب، وسيأتي تفصيله في كتاب الرضاع إن شاء الله تعالى. الرابع الجمع بين المحارم والأجنبيات كالأمة مع الحرة السابقة عليها. الخامس حق الغير، كالمنكوحة والمعتدة والحامل بثابت النسب . السادس عدم الدين السماوي كالمجوسية والمشركة. السابع: التنافي كنكاح السيد أمته والسيدة عبدها."

(كتاب النكاح، فصل في بيان المحرمات، 3 /208، ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101390

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں