بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رشتہ طے ہوجانے کے بعد گناہوں سے بچنے کے لیے خفیہ طور پر نکاح کرنے کا حکم


سوال

 میری اور میرے ماموں کی بیٹی کی تقریباً 3سال سے بات چیت ہے.ہم دونوں تقریباً ہم عمر ہیں. ہمارے گھر والوں کو کچھ عرصہ پہلے اس بات کا علم ہوا تو انھوں نے ہمارا آپس میں رشتہ طے کردیااور کہا کہ آپ پڑھائی مکمل کرو 4 سَال بعد آپ کی شادی کرادیں گے.اس بات کا امکان موجود ہے کہ ڈیڑھ سال تک ہمارے گھر والے نکاح کردیں اور 4 سال بعد رخصتی ۔ ہماری آپس میں موبائل فون پر بات چیت ہوتی ہے، گناہوں سے بچنے کےلیے لڑکی اور لڑکے نے ولی کی اجازت کےبغیر درج ذیل طریقے سے نکاح کرلیا. لڑکی نے میرے دوست کو کال پہ اپنا وکیل مقرر کردیا کہ" آپ میری طرف سے ایجاب و قبول کرلیں" تو لڑکی کا وکیل جو کہ میرا دوست ہے اس نے دو گواہوں کی موجودگی میں ایک قاضی صاحب جو کہ گواہ بھی تھا نکاح کا اور دوسرا ایک بندہ بھی گواہ تھا  تو لڑکی کےوکیل نے لڑکی کی جگہ ایجاب و قبول کرلیا، اور دولہا نے بھی ایجاب و قبول کرلیا- دلہن کا وکیل اور دولہا اور دو گواہ (قاضی خود گواہ + ایک اور گواہ) ایک ہی مجلس میں موجود تھےاور یہ سب عاقل بالغ مسلمان تھے۔ کیا ہمارا آپس میں نکاح ہوگیا ہے یا نہیں؟ اور یاد رہے کہ لڑکی کا وکیل جو سائل کا دوست ہے وہ لڑکی کا رشتہ دار نہیں ہے اور گواہ بھی لڑکی کے رشتے دار نہیں ہیں،لیکن لڑکے نے گواہوں کو اور وکیل کو لڑکی کامکمل تعارف کرادیا ،یہ نکاح ایک عام عاقل بالغ مسلمان نے پڑھا یا ہے -

جواب

صورتِ  مسئولہ میں سائل کو چاہیے تھا دونوں کے گھر والوں کو اعتماد میں لے کر اعلانیہ طور پر نکاح کرتا تاکہ بعد میں کسی بھی قسم کی پشیمانی کا سامنا نہ کرنا پڑے،تاہم سائل نے نکا ح کا جو طریقہ کار ذکر کیا ہے  اس کے مطابق  شرعا  نکاح منعقد ہوگیا ہے۔

فتاوی ہندیہ  میں ہے:

"وأما شروطه) فمنها العقل والبلوغ والحرية في العاقد......(ومنها) الشهادة قال عامة العلماء: إنها شرط جواز النكاح هكذا في البدائع.......ويشترط العدد فلا ينعقد النكاح بشاهد واحد هكذا في البدائع ولا يشترط وصف الذكورة حتى ينعقد بحضور رجل وامرأتين."

 (الفتاوى الهندية،کتاب النکاح ، (1/ 267) ط:رشیدیه)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض."

(کتاب النکاح، فصل ولاية الندب والاستحباب فی النکاح، 2/ 247،ط: سعید )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101329

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں