بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رشتہ طے ہونے سے پہلے لڑکی کو ایک نظر دیکھنے کا حکم اور تصویر کے متعلق حکم


سوال

1۔ کیا باپردہ لڑکی کے  لیے اپنی منگنی کے موقع پر لڑکے کے نانا اور چار ماموں(جو کہ شادی شدہ ہیں)کو لڑکے کی والدہ یعنی لڑکی کی ہونے والی ساس کے کہنے یا پھر ایک قسم کے دباؤ پر(اور اپنے بھی والدین کا یہی کہنا ہے ایک بار چہرہ دکھا دو تو اس صورت میں) لڑکے کے نانا اور ماموں کو صرف چہرہ دکھانے کی اجازت ہوگی یا نہیں؟ اگر لڑکی نے چہرہ نہ دکھانے پر اصرار کیا تو بعد میں ساس کی طرف سے بہتر سلوک نہ کرنے کا اندیشہ ہے اور اگر بالفرض چہرہ دکھا دیا تو اس کا گناہ کس پر ہوگا ؟

2۔ اگر اس موقع پر چہرہ دکھانے کی گنجائش ہو تو کیا براہ راست دکھانا بہتر ہوگا یا پھر تصویر کھینج کر دکھانا بہتر ہوگا یا پھر دونوں میں سے کسی کو بھی اختیار کرنے کا اختیار ہوگا؟

3۔ رشتہ داری میں رشتہ لگ جانے کے بعد منگنی کے موقع پر کیا لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو ایک بار(براہ راست)دیکھ سکتے ہیں باوجود اس کے کہ ایک ،دو سال پہلے ایک دوسرے کو دیکھا بھی ہو(لڑکی کے شرعی پردہ شروع کرنے سے پہلے) 

جواب

1/ 3/2۔واضح رہے کہ رشتہ طے کرنے سے پہلے اگر ضرورت ہو،اور لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو دیکھنا چاہتے ہوں،تو شریعتِ مطہرہ نے اس کی اجازت دی ہے کہ   دونوں ایک  نظر ایک دوسرے کو براہِ  راست  دیکھ سکتے ہیں، حدیث شریف میں اس دیکھنے کو شادی کے بعد محبت کا سبب بتایا گیا ہے،لیکن   مخطوبہ کو  دیکھنے کی  اجازت صرف اس شخص  کو ہے جس کا نکاح کا ارادہ ہو،نہ کہ اس کے نانا یا ماموں وغیرہ کو ؛ لہذا نہ تو گھر والوں کے لیے یہ جائز ہے کہ لڑکی کو اس بات آمادہ کریں کہ دیگر  غیر محارم کو اپنا چہرہ دکھائے اور نہ ہی ان دیگر نا محرم رشتہ داروں کے لیے جائز ہے کہ اس کا چہر ہ دیکھیں  چاہے براہِ راست ہو یا تصویر وغیرہ کے ذریعہ ،نیزشریعتِ مطہرہ کی رو سے کسی بھی جاندار کی تصویر بنانا یا بنوانا یا اسے دیکھنا سب  ناجائز ہے۔

تصویر کے حرمت سے متعلق مزید تفصیل کے لیے درج ذیل فتویٰ بھی  ملاحظہ کریں:

تصویر اور موبائل کی تصویر کی شرعی حیثیت

تاہم لڑکا لڑکی کا رشتہ ڈالنے سے پہلے  اگرچہ ایک نظر دیکھ لینے کی گنجائش ہے،لیکن ایک دوسرے کو دیکھنا   نہ تو   شرعاً ضروری ہے اور نہ لازم ہے ،بلکہ اگر گھر کی خواتین ہی یہ کام انجام دیں ،تب بھی کافی ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ولو أراد أن ‌يتزوج ‌امرأة فلا بأس أن ينظر إليها، وإن خاف أن يشتهيها لقوله - عليه الصلاة والسلام - للمغيرة بن شعبة حين خطب امرأة «انظر إليها فإنه أحرى أن يؤدم بينكما» رواه الترمذي والنسائي وغيرهما ولأن المقصود إقامة السنة لا قضاء الشهوة اهـ والأدوم والإيدام الإصلاح."

(كتاب الحظروالإباحة ،فصل في النظرواللمس، ج:6، ص:370، ط:سعيد)

سننِ نسائی میں ہے:

"عن المغيرة بن شعبة، قال: خطبت امرأة على عهد النبي صلى الله عليه وسلم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «أنظرت إليها؟»، قلت: لا، قال: «فانظر إليها فإنه أجدر أن يؤدم بينكما."

(كتاب النكاح ،‌‌إباحة النظر إلى المرأة قبل تزويجها،ج:5،ص162،ط:مؤسسة الرسالة بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503102131

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں