بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رشتہ کے لیے استخارہ منفی آنے کی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟


سوال

اگر کوئی کسی لڑکی سے بے حد محبت کرتا ہے اور نکاح کا استخارہ ٹھیک نہ آجائے اور اس کو چھوڑنا بے حد مشکل ہو تو ایسے حالات میں کیا کرنا چاہیے ؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں نامحرم لڑکے کا لڑکی سے اور لڑکی کا لڑکے سے تعلق اور محبت  جائز نہیں ہے، یہ شیطان کا وار ہوتا ہے،  اس کی ابتدا  اپنے اختیار سے ہوتی ہے، اسی لیے قرآن مجید میں مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ نامحرموں کو دیکھنے سے اپنے نظر جھکالیں، اور احادیثِ  مبارکہ میں جا بجا نظروں کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے، اور نظروں کو شیطان کے تیروں میں سے کہا گیا ہے، اور  بد نظری کو آنکھوں کا  زنا کہا گیا ہے، غرض یہ ہے کہ شریعت نامحرم سے تعلقات کی بالکل اجازت نہیں دیتی اور  اس نے اس کے سدباب کے لیے حفاظتی تدابیر کا بھی حکم دیا ہے، یہ عشقِ  مجازی آخرت کے ساتھ دنیا بھی برباد کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔

قرآن میں باری تعالیٰ کا  ارشاد  ہے:

"قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ"(سورة النور:30،31)

ترجمہ: آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے زیادہ صفائی کی بات ہے بے شک اللہ تعالیٰ کو سب خبر ہے جو کچھ لوگ کیا کرتے ہیں۔اور (اسی طرح) مسلمان عورتوں سے (بھی) کہہ دیجیے کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ (بیان القرآن)

اس لیے اگر یہ گناہ کسی سےسرزد ہوجائے تو اس پر لازم ہے کہ خوب توبہ و استغفار کرے۔

اسی طرح استخارہ سے متعلق یہ بھی واضح رہے کہ کسی  جائز معاملے  میں جب تردد ہو تو اس کی بہتری والی جہت معلوم کرنےکےلیےاستخارہ کیا جاتا ہے،  استخارہ کے بعد اس کے مطابق عمل کرنا  لازمی تو نہیں ہے، البتہ بہتر ہے  اور اس کے خلاف عمل کرنا جائز تو ہے، لیکن نقصان کا اندیشہ ہے،اس لئے اگر لڑکے اور لڑکی والوں کے استخارہ کرنے کی صورت میں دونوں فریقوں میں سے کسی ایک کو رشتہ کرنے میں اطمینان نہ ہو تو وہ اس رشتہ سے منع کرسکتا ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر لڑکا استخارہ کرنے کے بعد اس رشتہ پر اطمینان نہ ہو تو مناسب یہی ہے کہ رشتہ نہ کیا جائے، البتہ  لڑکے لڑکی دونوں کے درمیان رشتہ کرنے میں دونوں کے خاندان والے کوئی حرج اور ناپسندیدگی محسوس نہیں کرتے اور اس رشتہ کو چھوڑ دینے سے لڑکا ذہنی اور نفسیاتی تکلیف کا شکار ہو کر  گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے تو اس رشتہ کو قبول کر لیا جائے اور ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے خوشگوار ازدواجی زندگی عطا فرمانے کے لیے دعا بھی کرتے رہنا چاہیے۔

احسن الفتاوٰی میں ہے:

”مرشدی و سیدی حکیم الامت قدس اللہ سرہ العزیز نے بعد میں تحریر فرمایا ہے کہ استخارہ سے مقصود محض طلبِ خیر ہے، نہ کہ استخبار، فرمایا کہ استخارہ کی حقیقت یہ ہے کہ استخارہ ایک دعا ہے، جس سے مقصود صرف طلبِ اعانت علی الخیر ہے، یعنی استخارہ کے ذریعہ بندہ خدا تعالیٰ سے دعا کرتا ہے کہ میں جو کچھ کر دوں اسی کے اندر خیر ہو اور جو کام میرے لیے خیر نہ ہو وہ کرنے ہی نہ دیجیئے، پس جب استخارہ کر چکے تو اس کی ضرورت نہیں کہ سوچے کہ میرے قلب کا زیادہ رجحان کس بات کی طرف ہے، پھر جس بات کی طرف رجحان ہو اس پر عمل کرے اور اسی کے اندر خیر کو مقدم سمجھے، بلکہ اس کو اختیار ہے کہ دوسرے مصالح کی بنا پر بات میں ترجیح دیکھے، اسی پر عمل کرے اور اسی کے اندر خیر سمجھے؛ کیوں کہ پہلی صورت میں الہام کا حجتِ شرعیہ ہونا لازم آتا ہے اور لازم صحیح نہیں، لہٰذا ملزوم بھی صحیح نہیں، پس حاصل یہ ہے کہ استخارہ سے مقصود محض طلبِ خیر ہے ، نہ کہ استخبار۔ (بوادر النوادر: ج:2، ص:464، انفاس عیسی : ج:2، ص: 253)

۔۔۔حضرت تھانوی قدس سرہ کی تحقیق صحیح ہے کہ واردِ قلبی پر عمل کرنا ضروری نہیں، بلکہ اسباب و موانع پر نظر رکھے، واردِ قلبی سے متعلق روایت کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو اس کا اعتبار بدرجۂ سبب ہوگا، نہ بدرجۂ لزوم۔“

(باب الوتر والنوافل: ج: 3، ص: 478-479، ط: سعید)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"عن «جابر بن عبد الله قال: كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يعلمنا الاستخارة في الأمور كلها كما يعلمنا السورة من القرآن يقول إذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة، ثم ليقل: اللهم إني أستخيرك بعلمك، وأستقدرك بقدرتك، وأسألك من فضلك العظيم، فإنك تقدر ولا أقدر، وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب. اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال عاجل أمري وآجله، فاقدره لي ويسره لي ثم بارك لي فيه، وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال عاجل أمري وآجله فاصرفه عني واصرفني عنه، واقدر لي الخير حيث كان ثم رضني به، قال ويسمي حاجته» رواه الجماعة إلا مسلما شرح المنية.

[تتميم] معنى فاقدره اقضه لي وهيئه، وهو بكسر الدال وبضمها، وقوله «أو قال عاجل أمري» شك من الراوي. قالوا: وينبغي أن يجمع بينهما فيقول " وعاقبة أمري وعاجله وآجله " وقوله «ويسمي حاجته» قال ط: أي بدل قوله «هذا الأمر» . اهـ. قلت: أو يقول بعده وهو كذا وكذا، وقالوا الاستخارة في الحج ونحوه تحمل على تعيين الوقت. وفي الحلية: ويستحب افتتاح هذا الدعاء وختمه بالحمدلة والصلاة. وفي الأذكار أنه يقرأ في الركعة الأولى الكافرون، وفي الثانية الإخلاص. اهـ. وعن بعض السلف أنه يزيد في الأولى - {وربك يخلق ما يشاء ويختار} [القصص: 68] إلى قوله - {يعلنون} [القصص: 69]- وفي الثانية {وما كان لمؤمن ولا مؤمنة} [الأحزاب: 36] الآية. وينبغي أن يكررها سبعا، لما روى ابن السني «يا أنس إذا هممت بأمر فاستخر ربك فيه سبع مرات، ثم انظر إلى الذي سبق إلى قلبك فإن الخير فيه» ولو تعذرت عليه الصلاة استخار بالدعاء اهـ ملخصا. وفي شرح الشرعة: المسموع من المشايخ أنه ينبغي أن ينام على طهارة مستقبل القبلة بعد قراءة الدعاء المذكور، فإن رأى منامه بياضا أو خضرة فذلك الأمر خير، وإن رأى فيه سوادا أو حمرة فهو شر ينبغي أن يجتنب اھ."

(باب الوتر والنوافل،مطلب في ركعتي الاستخارة: ج:2، ص: 26-27، ط: سعید)

 کتاب الداء والدواء میں ہے:

"وأكثر ما تدخل المعاصي على العبد من هذه الأبواب الأربعة، فنذكر في كل باب منها فصلا يليق به. (النظرة) فأما اللحظات: فهي رائد الشهوة ورسولها، وحفظها أصل حفظ الفرج، فمن أطلق بصره أورد نفسه موارد المهلكات. و قال النبي صلى الله عليه وسلم: (لا تتبع النظرة النظرة، فإنما لك الأولى وليست لك الأخرى).

وفي المسند عنه صلى الله عليه وسلم: (النظرة سهم مسموم من سهام إبليس، فمن غض بصره عن محاسن امرأة لله، أورث الله قلبه حلاوة إلى يوم يلقاه) هذا معنى الحديث".

(فصل مدخل المعاصي، ص: 152، ط دار المعرفة)

تفسیر روح المعانی میں ہے:

"والمراد غض البصر عما يحرم والاقتصار به على ما يحل،... ثم إن غض البصر عما يحرم النظر إليه واجب ونظرة الفجأة التي لا تعمد فيها معفو عنها...وبدأ سبحانه بالإرشاد إلى غض البصر لما في ذلك من سد باب الشر فإن النظر باب إلى كثير من الشرور وهو بريد الزنا وراء الفجور، وقال بعضهم:

كل الحوادث مبداها من النظر … ومعظم النار من مستصغر الشرر".

(سورة النور، 9/ 333، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407101399

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں