بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رشتہ کروانے کی اجرت / رشتہ نہ ہونے کی صورت میں ایڈوانس واپس نہ کرنا


سوال

ایک خاتون نے رشتے کرانے والی خاتون سے رابطہ  کیا اور ان سے رشتہ کروانے کے عوض پینتس ہزار میں بات طے ہوئی اور پانچ ہزار روپے ایڈوانس دیئے اور یہ طے ہوا کہ باقی رقم رشتہ کرانے کے بعد دی جائے گی، ٹوٹل تیس ہزار میں بات طے ہوئی اور رشتے کروانے والی خاتون نے اس وقت یہ نہیں کہا کہ یہ ایڈوانس واپس نہیں دیا جائے گا،  ایسا کچھ طے نہیں ہوا تھا، اس کے بعد خاتون نے کچھ رشتے دکھائے جو دوسری خاتون کو پسند نہیں آئے ، اسی دوران ان کو کسی اور ذرائع سے ان کے مطابق رشتہ مل گیا،  اب ان خاتون کا کہنا ہے کہ میرے پانچ ہزار روپے واپس کرو؛  کیوں  کہ تم نے کوئی صحیح رشتہ نہیں دکھایا اور تم نے پیسے لیتے وقت یہ نہیں کہا تھا کہ یہ واپس نہیں ہوں گے اور تم نے کوئی محنت نہیں کی،  صرف فونوں پر ہی تو بات کی ہے، اس دوران دو مہینے کا عرصہ گزرگیا، اب سوال یہ ہے کہ ان خاتون کا پیسوں کا مطالبہ کر نا ٹھیک ہے؟ اور دوسری خاتون کے لیے  اس کو استعمال کرنا جائز ہے؟

جواب

لڑکا اور لڑکی کا مناسب رشتہ کرانا   ایک نیک عمل ہے، اس سے نہ صرف زوجین بلکہ دو خاندان آپس میں مل جاتے ہیں، اور نکاح کی سنت پر عمل ہوجاتا ہے،اس کے ساتھ  یہ میاں بیوی  اور   معاشرے کی بھی  ایک بہت بڑی ضرورت کو پورا کر نا ہے  اور   رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ پاک ہے کہ : ” جو شخص اپنے بھائی کی کسی حاجت کو پورا کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ہر قدم پر ستّر نیکیاں عطا فرماتا ہے“، لہذا   اس طرح کے مبارک اورنیک عمل کو  پیشہ کے طور پر اختیار کرنے کے بجائے عبادت کے طور پر انجام دینا چاہیے۔ البتہ  اگر رشتہ کروانے والے کو  اس عمل کے لیے محنت، وقت یا خرچہ وغیرہ اٹھانا پڑتا ہو  اور اس بھاگ دوڑ کی وہ باقاعدہ  معاہدہ کرکے اجرت متعین کرلے  تو اس کے لیے اجرت  لینا  ناجائز نہیں ہوگا۔

 صورتِ مسئولہ میں  اگر مذکورہ خاتون سے یہ معاہدہ ہوا تھا کہ رشتہ کروانے     کے  عوض ا ن کو پینتیس ہزار روپے دئیے جائیں گے ، جس میں سے  پانچ ہزار ایڈوانس  دئیے گئے  تو  مذکورہ خاتون کے ذریعے سے رشتہ کرانے کا عمل مکمل نہیں ہوا ؛ اس لیے وہ اجرت کی حق دار نہیں ہوگی اور اس کے لیے ایڈوانس کی مد میں لی ہوئی رقم بھی  واپس کرنا ضروری ہوگا۔

حديث شريف ميں ہے:

" حدثنا جعفر قال: نا محمد قال: نا عبد الرحيم بن زيد العمي، عن أبيه، عن الحسن، عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من مشى في ‌حاجة ‌أخيه المسلم كتب الله له بكل خطوة يخطوها ‌سبعين حسنة."

(المعجم الأوسط، باب الجيم، 3/ 344، ط: دار الحرمين)

المحيط البرهاني میں ہے:

"وفي «فتاوى الفضلي» : الدلالة في النكاح لا يستوجب الأجر وبه كان يفتي رحمه الله، وغيره من مشايخ زمانه كانوا يفتون بوجوب أجر المثل لهما، لأن ‌معظم ‌الأمر ‌في ‌النكاح يقوم بها، ولها سعي في إصلاح مقدمات النكاح، فيستوجب أجر المثل بمنزلة الدلال في باب البيع، وبه يفتى."

(كتاب الإجارات،الفصل الرابع والثلاثون: في المتفرقات،7 / 644،ط:دار الكتب العلمية)

مجمع الضمانات میں ہے:

"الدلالة في النكاح قيل: لا يجب لها أجر المثل إذ لم يعمل شيئا والزوج إنما ينتفع بالعقد وقيل: يجب وبه يفتى لسعيها في مقدمات النكاح كمبيع ويعتبر العرف في قدره من أحكام الدلال من الفصولين."

(باب مسائل الإجارة، النوع التاسع، ص54، ط: دارالكتاب الإسلامي)

درمختارمیں ہے:

"(و لايستحق ‌المشترك ‌الأجر حتى يعمل كالقصار ونحوه) كفتال و حمال و دلال و ملاح."

(كتاب الإجارة،  باب ضمان الاجیر، 6/ 64، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144502100594

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں