بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رہائشی محلہ میں دکان کھولنا


سوال

ہماری ایک رہائشی بلڈنگ ہے(یعنی تجارتی محلہ یا تجارتی عمارت نہیں ہے)اب وہاں ایک آدمی نے زمینی فلیٹ رہائش کے نام پر خرید کر وہاں اس فلیٹ میں ایک کپڑے کی دکان کھول لی ہے،دکان کا دروازہ باہر گلی کی طرف نکلتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ رہائشی ایریا میں تجارتی سرگرمیاں کرنا حکومتی قانون کی خلاف ورزی ہے،نیز اس آدمی نے یہ فلیٹ خریدا بھی رہائش کے نام پر ہے،اور دوسرے مکینوں کو بھی کپڑے کی دکان سے آگ لگنے کا خطرہ در پیش ہے(تاحال کوئی اس طرح کا واقعہ پیش نہیں آیا ہے)آیا اس شخص کے لیے ایسی دکان بنانا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

رہائشی بلڈنگ اور ریزیڈنشل پلاٹ پر رہائشی مکان  میں کپڑے کی دکان وغیرہ کھولنے سے اگر علاقہ والوں کو گلی محلہ میں رش کی وجہ سے تنگی ہو،یا شور شرابے کی وجہ سے محلہ والوں کو  تکلیف ہوتو اس طرح کے محلہ میں دکان کھولنے اور  تجارتی سرگرمیاں اپنانے سے گریز کرنا چاہیے، ہاں اگر رہائشی بلڈنگ والے راضی ہیں اور اجازت دے دیں تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"المسألة الأولى - مثلا لو اتخذ أحد دكان حداد أو نجار أو طاحونا في جوار دار آخر بعد إنشاء تلك الدار فحصل من طرق الحديد أو من شغل النجارة أو من دوران الطاحون وهن لبناء تلك الدار أو أحدث بجوار الدار المذكورة فرنا دائما كفرن السوق أو أحدث معصرة أو مصبنة بحيث لا يستطيع صاحب الدار السكنى فيها لتأذيه من الدخان ومن الرائحة الكريهة أو اتخذ أحد دكان حلاج متصلة بدار آخر وكان صاحب الدار لا يستطيع السكنى فيها من صوت الحلج فلكل ذلك ضرر فاحش يدفع ويزال بأي وجه كان لأن بعض هذه الأضرار يوجب وهن البناء وبعضها يوجب منع الحوائج الأصلية من السكنى في الدار (الطحطاوي في مسائل شتى من القضاء، والأنقروي في الحيطان)."

(الکتاب العاشر:الشرکات،ج3،ص215،ط؛دار الجیل)

وفیہ ایضا:

"كذلك لو بنى أحد حانوتا لنفسه في عرصته وقف بإذن المتولي ولم يكن في ذلك ضرر لصاحب الدار المقابلة للحانوت فليس لصاحب تلك الدار منعه بقوله: لا أرضى بفتح حانوت مقابل داري (الأنقروي وفتاوى علي أفندي)."

(الکتاب العاشر:الشرکات،ج3،ص215،ط؛دار الجیل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101546

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں