بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رہائش کی نیت سے خریدے گئے پلاٹ پر زکوۃ کا حکم


سوال

 میرے پاس ایک رہائشی مکان ہے اور اس کے علاوہ میں نے مزید ایک پلاٹ بچوں کی رہائش کے لئےتقریبا 20 لاکھ روپے قرض لے کر خریدا جو میں ہر مہینے قسط وار قرض خواہ کو ادا کرتا ہوں ،اب سوال یہ ہے کہ اس مذکورہ صورت حال کے پیش نظر مجھ پر زکوٰۃ واجب ہے یا نہیں ؟اور  زکوۃ  کا حساب کرتے وقت اس 20 لاکھ قرض کو منہا کرنا پڑے گا یا کل رقم میں اسے بھی شمار کرنا پڑے گا؟ برائے کرم جواب دے کر شکریہ کا موقع دیں ۔

جواب

صورت مسئولہ میں اگرمذکورہ  پلاٹ تجارت (فروخت )کی نیت سےنہیں خریدابلکہ بچوں کی رہائش کے لیے خریدا ہے تو  اس پلاٹ پر شرعاً زکوٰة واجب نہیں ہوگی۔البتہ پلاٹ کی خریداری کے سلسلے میں بیس لاکھ روپےجوقرض لیاگیاتھازکوۃ کی ادائیگی کے وقت اس قرض کومنہاکرنےسےمتعلق یہ تفصیل ہے کہ  اگرسائل پہلے سے صاحبِ نصاب ہے تو  زکاۃ کا سال پورا ہونے تک جتنی قسطیں واجب الادا ہوں، انہیں منہا کرنے کے بعد اگر آپ کی ملکیت میں اتنی رقم یا اس کے ساتھ سونا چاندی یا مالِ تجارت موجود ہےجس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی تک پہنچ جائے تو سال پورا ہونے پر آپ پر زکاۃ واجب ہوگی، ورنہ نہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(ومنها فراغ المال) عن حاجته الأصلية فليس في دور السكنى وثياب البدن وأثاث المنازل ودواب الركوب وعبيد الخدمة وسلاح الاستعمال زكاة."

(الفتاوى الهندية:كتاب الزكاة، الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها (1/ 172)،ط. رشيديه)

فتاوی شامی میں ہے:

" (وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول لحولانه عليه (تام) ... (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد) ... (و) فارغ (عن حاجته الأصلية) لأن المشغول بها كالمعدوم ... (نام ولو تقديرا) بالقدرة على الاستنماء ولو بنائبه."

 (الدرالمختار مع رد المحتار ، كتاب الزكاة ، 2/ 259، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101204

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں