بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رہائشی پلاٹ پر زکوۃ کا حکم


سوال

1 : ہائی وے پر ایک پلاٹ لیا ہے ساڑھے 8 لاکھ میں رہائش کے لیے تو اس میں زکوٰۃ کتنی آئے گی؟

2 : بیوی کے حق مہر 2 تولہ میں سے پونے ایک تولہ ادا کردیا گیا اور اب اس سونے میں زکوٰۃ کون ادا کرےگا؟ جبکہ سونا بیوی کے قبضے میں ہے ، 4 آنہ ادھار مانگا تھا تو کہا میں انہیں بیچنے نہیں دوں گی،  اپنے قبضے میں لے رکھا ہے۔ جس کی مالیت 1 لاکھ 45 ہزار روپے بنتے ہیں ۔

3 : اگر بیوی سونا بیچنا چاہے تو وہ اجازت کس کی چلےگی؟ اپنی والدہ کے کہنے پر راضی ہوتی ہے، لیکن شوہر کے کہنے پر ناراض تو اس صورت حال میں کیا کرنا چاہیے ؟

جواب

1. اگر مذکورہ پلاٹ رہائش کے لیے لیا ہے، جیسا کہ سوال میں درج ہے، تو اس پلاٹ پر زکوۃ واجب نہیں۔

2. مہر کی مد میں آپ نے جو سونا بیوی کو دیا ہے اس کی زکوۃ آپ کے اوپر لازم نہیں، پھر اگر بیوی کے پاس صرف یہی سونا ہو، اس کے علاوہ سونا، چاندی، کیش اور مالِ تجارت میں سے کچھ بھی نہیں تو اس کی زکوۃ بیوی پر بھی لازم نہیں، اس لیے کہ سونے پر زکوۃ اس وقت لازم ہوتی ہے جب وہ ساڑھے سات تولہ کو پہنچ جائے۔

اور اگر اس سونے کے علاوہ بیوی کی ملکیت میں چاندی، کیش یا مالِ تجارت میں سے کچھ موجود ہو تو ایسی صورت میں چوں کہ چاندی کا نصاب مکمل ہے اس لیے زکوۃ لازم ہو گی۔

3. مذکورہ سونے کی مالک بیوی ہے اور وہ اس کے فروخت کرنے میں بالکل آزاد ہے،شوہر کو اس میں مداخلت کا حق نہیں۔

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:

"اتفق الفقهاء على أنه يشترط في زكاة مال التجارة أن يكون قد نوى عند شرائه أو تملكه أنه للتجارة، والنية المعتبرة هي ما كانت مقارنة لدخوله في ملكه؛ لأن التجارة عمل فيحتاج إلى النية مع العمل، فلو ملكه للقنية ثم ‌نواه ‌للتجارة لم يصر لها، ولو ملك للتجارة ثم نواه للقنية وأن لا يكون للتجارة صار للقنية، وخرج عن أن يكون محلا للزكاة."

(بحث الزکوۃ، جلد:23، صفحہ: 271، طبع: دار السلاسل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408102659

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں