میں ایک رکشہ ڈرائیور ہوں، میں نے نیا رکشہ لیا ہے قسطوں پر ایک بندہ سے جو قسطوں کا کاروبار کرتاہے، سوال یہ ہے کہ رکشہ کی اصل قیمت دو لاکھ روپے ہے، اس نے مجھے یہ رکشہ تین لاکھ پندرہ ہزار میں دیا ہے اور اس کی دس ہزار روپے ماہانہ قسط ہے، اس میں میں نے پچاس ہزار ایڈوانس بھی دیے ہیں، اس پر اس نے جو ایک لاکھ پندرہ ہزار زیادہ لیے ہیں، کیا یہ زیادہ روپے میرے لیے اس کو دینا جائز ہے؟ ایک حساب سے ایک لاکھ پچاس ہزار پر ایک لاکھ پندرہ ہزار لینا جائز ہے، اور اس میں ان قسطوں پر کوئی وقت مقرر نہیں ہے، اگر یہ قسطوں کو دو سال یا تین چار سال میں دوں تو کوئی جرمانہ نہیں ہے، کیا یہ ایک لاکھ پندرہ ہزار زیادہ دینا سود کی مد میں تو نہیں آتا ہے؟ اور میری مجبور ہے کہ رکشہ چلانے کے علاوہ اور کام نہیں آتا اس وقت اور کوئی کسی طرح مدد بھی نہیں کرتا۔ یہ میرے لیے صحیح ہے کہ نہیں؟
اگر آپ نے یہ رکشہ قسطوں پر لیا ہے اور اس رکشہ کی قیمت شروع سے ہی تین لاکھ پندرہ ہزار روپے طے ہوئی ہے اور جیساکہ آپ نے لکھا ہے کہ قسط کی تاخیر کی صورت میں کوئی جرمانہ بھی نہیں ہے تو اس طرح قسطوں پر رکشہ لینا جائز ہے اور اس صورت میں جو زائد رقم رکشے کی قیمت کے طور پر وصول کی جا رہی ہے وہ سود کے زمرے میں نہیں آئے گی۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144112200898
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن