بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ریال کی صورت میں قرض لیا، تو ریال ہی لوٹانا لازم ہے


سوال

میں نے 1000 ریال ایک بندے کو بطور ادھار بینک کے ذریعے پاکستان بھیجےتھے، اس وقت ریال 40 روپے کا تھا، یعنی اسے پاکستان میں40,000 روپے ملے،  اب چونکہ ریال کی قیمت بڑھ گی ہے، تو اب وہ بندہ مجھے ریال میں قرض واپس کرے گا یا پاکستانی روپے میں جو اس وقت اسے ملے تھے وہ ادا کرے گا؟ . نیز اگر ادھار دیتے وقت شرط رکھی ہو کہ قرض کی واپسی ریال میں کرنی ہوگی، اس صورت میں کیا حکم ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ قرض کے متعلق یہ اصول ہے  کہ قرضہ کی واپسی اسی کرنسی میں کی جاتی ہے، جو کرنسی مقروض کو موصول ہو، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل نے پاکستان میں موجود شخص کو ایک ہزار ریال قرضہ دیا،جو کہ اس کو روپیہ کے کھاتے  (pkr account) میں وصول کرنے کی وجہ سے روپیہ کی صورت میں موصول ہوئے، تو ایسی صورت میں یہ دیکھا جائے گا بینک کے ذریعے رقم مُقرض (قرض دہندہ) نے بذاتِ خود بھیجی ہے یا مقروض کے کہنے پر بینک کے ذریعہ بھیجی ہے، اگر مُقرِض نے یہ رقم بذاتِ خود بھیجی ہے، تو ایسی صورت میں بینک مُقرض کا وکیل سمجھا جائے گا اور خود رقم پاکستانی کرنسی میں منتقل کر کے  مُقرض کی طرف سے دینے والا شمار ہوگا اور واپسی بھی روپوں کی صورت میں ہی لازم ہوگی۔ لیکن اگر مُقرض نے یہ رقم مقروض کے کہنے پر بینک کے ذریعے بھیجی ہے، تو ایسی صورت میں بینک مقروض کا وکیل شمار ہوگا اور مقروض ہی کی طرف سے ریال وصول کر نے والا شمار ہوگا اور واپسی بھی ریال کی صورت میں ہی لازم ہوگی۔

خلاصہ کلام یہ کہ اگر مُقرض نے خود بینک کے ذریعے رقم بھیجی ہے، تو قرضہ کی ادائیگی روپوں کی صورت میں ہوگی اور اگر مقروض کے کہنے پر بھیجی ہے، تو قرضہ کی ادائیگی ریال کی صورت میں ہوگی۔

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"(استقرض من الفلوس الرائجة والعدالي فكسدت فعليه مثلها كاسدة) و (لا) يغرم (قيمتها) وكذا كل ما يكال ويوزن لما مر أنه مضمون بمثله فلا عبرة بغلائه ورخصه.

وفي الشامية تحته:

وإن استقرض دانق فلوس أو نصف درهم فلوس، ثم رخصت أو غلت لم يكن عليه إلا مثل عدد الذي أخذه، وكذلك لو قال أقرضني عشرة دراهم غلة بدينار، فأعطاه عشرة دراهم فعليه مثلها، ولا ينظر إلى غلاء الدراهم، ولا إلى رخصها."

(كتاب البيوع، فصل في القرض، ج:5، ص:162، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503100991

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں