بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رہائشی مکان کا نام الرحمن ہاؤس رکھنے کا حکم


سوال

ایک صاحب کچھ برس پہلے فوت ہو گئے تھے،  ان کے بچوں اور پوتوں کے ناموں میں "الرحمٰن"  آتا ہے،  برسوں بعد ان کے بچوں نے اپنا گھر تعمیر کروایا ہے اور اپنے والد اور خاندان  کے  مردوں  کے نام کے ساتھ جڑے اللہ تَعَالٰی کے نام الرحمٰن کی نسبت سے اپنے گھر کے باہر" الرحمٰن ہاوس"  کی تختی لگوانا چاہتے ہیں،  سوال یہ ہے کہ کیا گھر یا دیگر رہائشی عمارت کا نام الرحمن ہاؤس رکھنا جائز ہے یا نہیں؟  ۔

جواب

بصورتِ مسئولہ وہ اسماءِ حسنیٰ جو باری تعالی کے اسمِ ذات ہوں یا صرف باری تعالی کی صفاتِ مخصوصہ کے معنی ہی میں استعمال ہوتے ہوں ، تو  ان کا استعمال غیر اللہ کے لیے کسی حال  میں بھی جائز نہیں، مثلاً :"اللّٰه، الرحمن،القدوس، الجبار، المتکبر"،البتہ غیر اللہ کے لیے یہ اسماء عبد کی اضافت کے ساتھ استعمال کیے جاسکتے ہیں، جیسے: عبد الرحمن، وغیرہ،  لہذا مذکورہ رہائش گاہ کے تعارف کے  لیے صرف "الرحمن ہاؤس" نام رکھناجائز نہیں ہے، تاہم عبدیت کے ساتھ نام رکھنا یعنی " عبدالرحمن ہاؤس" جائز ہے۔

الفتوحات الربانية على الأذكار النواوية   میں ہے:

"قال العاقولي في شرح المصابيح: ما نهى الشارع عن التسمية به، منه ما كان النهي لكون ذلك لايليق إلا باللهِ تعالى كملك الأملاك، ومنه ما نهى عن التسمية به لكونه خاصاً برسول الله -صلى الله عليه وسلم- كأبي القاسم لأنه ما يقسم بين العباد ما أعطاهم الله ومنه ما نهى عن التسمية به لغيره تفاؤلاً لصاحبه كحزن. فسماه صلى الله عليه وسلم سهلاً الحديث ومنه ما نهى عن التسمية به لغيره كبرة فغيره صلى الله عليه وسلم ... واعلم أن التسمية بهذا الاسم حرام وكذا التسمية بأسمائه تعالى المختصة به كالرحمن والرحيم والملك والقدوس وخالق الخلق ونحوها."

(باب النهي عن التسمية بالأسماء المكروهة، ج:6، ص:109/113، ط:دارالكتب العلمية) 

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144212202036

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں