میں نے زمین خریدی اپنے بچوں کے لیے، مگر اب کسی مشکل کی وجہ سے اس کو بیچ رہا ہوں تو کیا اس کی قیمت پر زکات ہوگی یا نہیں؟
بصورتِ مسئولہ بچوں کے لیے خریدی گئی زمین فروخت کرنے پر زکات کا حکم یہ ہے کہ اگر بچوں سے نابالغ بچے مراد ہیں اور ان کے لیے زمین خریدنے سے مراد اُنہیں بطورِ ملکیت دینا ہے، تو ان کے لیے خریدی گئی زمین ان کی ملکیت ہے، اور نابالغ بچوں کے مال میں شرعًا زکات نہیں ہوتی، لہذا مذکورہ زمین فروخت کرنے کے بعد اس کی قیمت پر بھی زکات نہیں ہوگی، لیکن ایسی صورت میں یہ زمین یا اس کی قیمت والد اپنے ذاتی استعمال میں نہیں لاسکتا، بلکہ بچوں کے مصالح و مفاد میں ہی اسے صرف کرے گا۔
اور اگر بچوں سے عاقل بالغ بچے مراد ہیں، اور مذکورہ زمین خرید کر ان کو شرعی قبضہ بھی دے دیا تھا، تو مذکورہ زمین بچوں کی ملکیت ہے، والد ان کی اجازت کے بغیر اسے فروخت نہیں کرسکتا، مالکان کی اجازت سے فروخت کرنے کے بعد اس کے مالک پر صاحبِ نصاب ہونے کی صورت میں اس کی قیمت پر زکات ہوگی۔
اور اگر اولاد کے لیے زمین لینے کا مطلب یہ ہے کہ زمین اس نیت سے لی تھی کہ بچوں کی شادیوں یا اعلیٰ تعلیم وغیرہ کے مصارف اسے بیچ کر ادا کیے جائیں گے، تو چوں کہ اس زمین کے مالک آپ ہی تھے، لہٰذا بوقتِ ضرورت آپ اسے فروخت بھی کرسکتے ہیں، اور اس کی قیمت کا حکم عام رقم کا ہے، یعنی اگر آپ صاحبِ نصاب ہیں تو زکات کا سال پورا ہونے پر جو رقم موجود ہو، اس پر زکات واجب ہوگی۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:
"أن الزكاة عبادة عندنا، والصبي ليس من أهل وجوب العبادة فلا تجب عليه كما لا يجب عليه الصوم والصلاة،"
(كتاب الزكوة، فصل شرائط فرضية الزكوة، ج:2، ص:04، ط:دارالكتب العلمية)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144207200302
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن