بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 جمادى الاخرى 1446ھ 08 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

عبد الرفیع نام رکھنا کیسا ہے؟ اگر کوئی صرف رفیع کہے تو یہ گناہ تونہیں ہے ؟


سوال

عبدالرفیع نام رکھنے کا کیا مطلب ہے؟ اور اگر کوئی صرف رفیع کہے تو یہ گناہ  تونہیں ہے ؟

جواب

عبد کے معنی عربی زبان میں ”بندہ“ کے آتے ہیں اور رفیع اللہ تبارک وتعالی کاصفتی نام ہے ،تو عبد الرفیع نام کا مطلب رفیع کا بندہ یعنی اللہ کا بندہ ہے،لہذا بچے کا یہ نام رکھنا درست ہے اور چوں کہ اللہ عزوجل  کے بعض صفاتی نام ایسے ہیں،جو اللہ اور غیر اللہ دونوں کے درمیان مشترک ہیں،یعنی اس صفتی نام کا استعمال غیر اللہ کے لیے بھی ہوتا ہے ،ان  ناموں  میں سے  چوں کہ رفیع  نام بھی ہے،لہذا عبد الرفیع کوصرف رفیع پکارنے کی وجہ  سے گناہ گار نہیں ہوگا، البتہ پورانام عبد الرفیع کہہ کر   پکارناچاہیے ۔

فتح الباری میں ہے:

" فإذا اقتصر من رواية الترمذي على ما عدا هذه الأسماء وأبدلت بالسبعة والعشرين التي ذكرتها خرج من ذلك تسعة وتسعون اسما وكلها في القرآن واردة بصيغة الاسم ومواضعها كلها ظاهرة من القرآن إلا قوله الحفي.القادر المقتدر القاهر الكافي الشاكر المستعان الفاطر البديع الغافر الأول الآخر الظاهر الباطن الكفيل الغالب الحكم العالم الرفيع."

( قولہ باب قول لاحول ولا قوۃ الا باللہ، 219/11، ط: المكتبة السلفية - مصر )

المستدرک علی الصحیحین میں ہے:

" عن أنس رضي الله عنه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان آخر ما تكلم به:’’ جلال ربي ‌الرفيع فقد بلغت ‘‘، ثم قضى صلى الله عليه وسلم."

(کتاب المغازی والسرایا،58/3، ط: دار الكتب العلمية - بيروت)

حلیۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء میں ہے:

" كان إبراهيم بن أدهم يقول هذا الكلام في كل جمعة إذا أصبح عشر مرات، واذ أمسى يقول مثل ذلك: مرحبا بيوم المزيد، والصبح الجديد، والكاتب الشهيد، يومنا هذا يوم عيد، اكتب لنا فيه ما نقول. بسم الله الحميد المجيد، ‌الرفيع الودود."

(ابراہیم بن ادھم، 38/8، ط: مطبعة السعادة، مصر)

الفتن لنعیم بن حماد میں ہے:

"عن كثير بن مرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أشراط الساعة أن يملك من ليس أهلا أن يملك، ويرفع الوضيع، ويوضع الرفيع."

(ما يذكر من غلبة سفلة الناس وضعفائهم، 244/1، ط: مكتبة التوحيد - القاهرة)

فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ احسن الفتاوی میں ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:

’’ ہر زبان میں اسماءتین طرح استعمال ہوتے ہیں :

(1)مختص بالله مفردًا ومضافاً( 2)غير مختص مفردًا ومضافا (3)مختص مفردًا لا مضافا ۔

مثلاً فارسی میں خدا مفردًا مختص باللہ تعالیٰ ہے مگر مضافاً مختص نہیں، بلکہ غیر پر بھی اطلاق کیا جاتا ہے اور اُردو میں بہر حال یہ مختص باللہ تعالیٰ ہے، اس سے ثابت ہوا کہ اس میں اہل لسان کا عرف معتبر ہے ، البتہ جن اسماء کا مبدأ اشتقاق ہی غیر میں نہیں پایا جاتا، جیسے خالق و رازق و غیر ہما ،ان سے متعلق عرف کے معلوم کرنے کی ضرورت نہیں ، ایسے اسماء لازما کسی علاقہ کے عرف میں بھی غیر اللہ پر نہیں بولے جاتے ، جن اسماء کا مبدأ اشتقاق غیر اللہ میں پایا جاتا ہے ان کے جواز استعمال کے لئے مفردا و مضافاً عرف کو دیکھا جائے گا چونکہ ننانو ے اسماء حسنی عربی ہیں اس لئے ان میں سے وہ اسماء جن کا مبدا اشتقاق غیر میں پایا جاتا ہے ان کے جواز استعمال للغیر کے لیے عرب کے عرف کو دیکھا جائے گا ۔ یہ تفصیل اطلاق اسماء کے بارے میں ہے ، کسی کا نام رکھنے کی صورت میں حذف مضاف بہر حال جائز ہے ، اس لئے کہ وہ متکلم کی مراد میں داخل ہے ، مع ہذا کراہت سے خالی نہیں،فقط واللہ اعلم۔‘‘

(مسائل شتّی، 60/9، ط: ایچ ایم سعید کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144602102178

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں