بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رفع یدین اور صحابہ کاعمل


سوال

کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری زندگی میں رفع الیدین کیاتھا یا نہیں ؟ دوسری یہ کہ رفع الیدین فرض ہے واجب ہے سنت ہے ؟کیاہے؟

جواب

(1)صورت مسئولہ میں رفع یدین ابتدا میں نمازشروع کرتے وقت اوررکوع میں جاتے وقت اوررکوع سے اٹھتے وقت اوردونوں سجدوں کے درمیان ہوتاتھا، اوریہ سب صحیح احادیث سے ثابت ہے۔پھرسجدوں کے درمیان اوررکوع میں جانے اوررکوع سے اٹھنے کے مواقع میں منسوخ ہوگیا۔اوریہ کئی صحابہ کرامؓ سے قولاً اورعملاً ثابت ہے۔خاص کر خلفاءِ راشدین میں سے حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفروحضر کے خادم، خلفائے راشدین کے بعداعلیٰ مقام رکھنے والے اورصحابہ کے درمیان فقاہت میں ممتازحضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ  کے علاوہ بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاعمل بھی اسی پرتھا۔ ظاہر بات ہے کہ حضور ﷺ کے اتنے قریب رہنے والے اور علم وفقہ اور فتویٰ میں بلند مقام رکھنے والے یہ صحابہ کرام کبھی بھی سنت کو ترک نہیں کرسکتے، ان کا معمول اس بات کی دلیل ہے کہ تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ رفعِ یدین سنت نہیں ہے۔ 

(2)’’ مسئلہ رفع یدین کا تعلق وجوب وعدمِ وجوب سے نہیں ہے؛ بلکہ صرف سنیت وافضیلت سے متعلق ہے، جن علماء کے درمیان اس مسئلہ میں اختلاف ہے، تو ان میں دونوں طرف کے لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ رفع یدین واجب یا لازم نہیں ہے، ان کے درمیان اختلاف صرف اس بارے میں ہے کہ رفع یدین سنت اور افضل ہے یانہیں؟  رفع یدین نہ کرنا ان کے نزدیک بھی گناہ نہیں ہے، جو رفع یدین کے قائل ہیں، اسی طرح رفع یدین کرنا ان کے نزدیک بھی گناہ نہیں ہے جو عدمِ رفع یدین کے قائل ہیں، مسئلہ صرف حصولِ ثواب وفضیلت سے متعلق ہے۔احناف کے ہاں  عام نمازوں میں  تکبیر تحریمہ کے علاوہ  میں ترک رفع یدین سنت اور افضل ہے۔

 ترمذی شریف کی روایت ہے:

" عن علقمة قال: قال عبد الله [ بن مسعود ] : ألا أصلي بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه و سلم ؟ فصلى فلم يرفع يديه إلا في أول مرة.  [ قال:] وفي الباب عن البراء بن عازب.  قال أبو عيسى: حديث ابن مسعود حديث حسن". 

(2/ 40)

ترجمہ:" عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے فرمایا:  کیا میں تمہیں وہ نماز پڑھاؤں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز ہے؟ تو آپ نے نماز پڑھائی اور رفع یدین نہیں کیا سوائے پہلی مرتبہ کے۔"

موطأ مالك رواية محمد بن الحسن الشيباني میں ہے :

"قال محمد ، أخبرنا الثوري، حدثنا حصين، عن إبراهيم، عن ابن مسعود ، أنه ‌كان ‌يرفع ‌يديه ‌إذا ‌افتتح ‌الصلاة "

(ص: 59/ط:مکتب العلمیۃ)

اسی طرح مصنف ابن ابی شیبہ میں  روایت نقل کی گئی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ صرف تکبیرِ اولیٰ میں رفعِ یدین فرمایا کرتے تھے، اس کے علاوہ دیگر مواقع پر رفعِ یدین نہیں فرمایا کرتے تھے۔

مصنف ابن أبي شيبة - ترقيم عوامة (1/ 236):

"عن عاصم بن كليب، عن أبيه، «‌أن ‌عليا، ‌كان ‌يرفع ‌يديه ‌إذا ‌افتتح ‌الصلاة، ‌ثم ‌لا ‌يعود"

مسند أبي یعلی الموصلي میں ہے:

"عن البراء -رضي الله عنه- قال: رأیت رسول الله صلی الله علیه وسلم رفع یدیه حین استقبل الصلاة، حتی رأیت إبهامیه قریباً من أذنیه، ثم لم یرفعهما".

(مسند أبي یعلی الموصلي، دارالکتب العلمیة، بیروت ۲/ ۱۵۳، رقم: ۱۶۸۸، أبوداؤد، الصلاة، باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع، النسخة الهندیة ۱/ ۱۰۹، دارالسلام، رقم: ۷۴۹) 

سنن الکبری للبیهقي میں ہے:

"عن علقمة، عن عبد الله بن مسعودؓ، قال: صلیت خلف النبي ﷺ ومع أبي بکر وعمر رضی الله عنهما فلم یرفعوا أیدیهم إلا عند افتتاح الصلاة".

(السنن الکبری للبیهقي، دارالکفر بیروت ۲/ ۳۹۳، رقم: ۲۵۸۶)

تکبیر تحریمہ کے علاوہ دیگر مواقع پر رفع  یدین نہ کرنے کے دلائل درج ذیل ہیں:

1۔۔  "حدّثنا إسحاق، حدثنا ابن إدریس قال: سمعت یزید بن أبي زیاد عن ابن أبي لیلی عن البراء قال: رأیت رسول  الله صلی  الله علیه وسلم رفع یدیه حین استقبل الصلاة، حتی رأیت إبهامیه قریبًا من أذنیه ثم لم یرفعهما".

(مسند أبی یعلی الموصلي ۲/ ۱۵۳، حدیث: ۱۶۸۸، طحاوي شریف ۱/ ۱۳۲، جدید برقم: ۱۳۱۳، أبوداؤد، ۱/ ۱۰۹، جدید برقم: ۷۴۹)

ترجمہ: حضرت براء بن عازب رضی  اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول  اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ دونوں ہاتھوں کو اٹھایا جس وقت نماز شروع فرمائی تھی، حتی کہ میں نے دیکھا کہ دونوں ہاتھوں کے انگوٹھوں کو دونوں کانوں کے قریب پہنچایا، اس کے بعد پھر اخیر نماز تک دونوں ہاتھوں کو نہیں اٹھایا۔

2۔۔ "عن عقلمة عن عبد الله بن مسعود عن النبي صلی  الله علیه وسلم أنه کان یرفع یدیه في أوّل تکبیرة ثم لایعود".

(شرح معاني الآثار، للطحاوي ۱/ ۱۳۲، جدید ۱/ ۲۹۰، رقم: ۱۳۱۶)

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی  اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ صرف شروع کی تکبیر میں دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے، پھر اس کے بعد اخیر نماز تک نہیں اٹھاتے تھے۔

3۔۔  "عن المغیرة قال: قلت لإبراهيم: حدیث وائل أنه رأی النبي صلی  الله علیه وسلم یرفع یدیه إذا افتتح الصلاة وإذا رکع وإذا رفع رأسه من الرکوع، فقال:إن کان وائل رآه مرةً یفعل ذلك فقد رآه عبد الله خمسین مرةً لایفعل ذلك".

 (شرح معاني الآثار، للطحاوي ۱/ ۱۳۲، جدید ۱/ ۲۹۰، برقم: ۱۳۱۸)    

ترجمہ:" حضرت مغیرہؒ نے حضرت امام ابراہیم نخعیؒ سے حضرت وائل ابن حجرؒ کی حدیث ذکر فرمائی کہ حضرت وائل بن حجرؒ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول  اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے جب نماز شروع فرماتے اور جب رکوع میں جاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے، تو اس پر ابراہیم نخعیؒ نے مغیرہ سے کہا کہ اگر وائل بن حجرؓ نے حضور ﷺ کو اس طرح رفع یدین کرتے ہوئے ایک مرتبہ دیکھا ہے تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی  اللہ عنہ نے حضور کو پچاس مرتبہ رفع یدین نہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔"

4۔۔  "عن جابر بن سمرة قال: خرج علینا رسول  الله صلی  الله علیه وسلم فقال: مالي أراکم رافعی أیدیکم کأنها أذناب خیل شمس، اسکنوا في الصلاة".

(صحیح مسلم  ۱/  ۱۸۱)

ترجمہ :" حضرت جابر بن سمرہ رضی  اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی  اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف تشریف لاکر فرمایا : مجھے کیا ہوگیا کہ میں تم لوگوں کو نماز کے اندر اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں، گویا کہ ایسا لگتا ہے جیسا کہ بے چینی میں گھوڑے اپنی دم کو اوپر اٹھا اٹھا کر ہلاتے ہیں، تم نماز (کے اندر ایسا ہرگز مت کیا کرو، نماز) میں سکون اختیار کرو۔"

5۔۔ "عن  علقمة قال: قال عبد الله بن مسعود ألا أصلي بکم صلاة رسول  الله صلی  الله علیه وسلم، فصلی فلم یرفع یدیه إلا في أول مرة".

( جامع الترمذي  ۱/ ۵۹، جدید برقم: ۲۵۷، أبوداؤد شریف ۱/ ۱۰۹، جدید برقم: ۷۴۸)

ترجمہ:" حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی  اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ تم آگاہ ہوجاؤ! بے شک میں تم کو حضور صلی  اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھاکر دکھاتا ہوں، یہ کہہ کر نماز پڑھائی اور اپنے دونوں ہاتھوں کو صرف اول تکبیر میں اٹھایا، پھر پوری نماز میں نہیں اٹھایا۔"

6۔۔  " عن علقمة قال: قال عبد الله بن مسعود: ألاَ أصلّي بکم صلاة رسول  الله صلی الله علیه وسلم قال:  فصلی فلم یرفع یدیه إلا مرةً واحدةً".

(سنن النساائي  ۱/ ۱۲۰، جدید رقم: ۱۰۵۹، أبوداؤد قدیم ۱/ ۱۰۹، جدید برقم: ۷۴۸، ترمذي قدیم    ۱/ ۵۹، جدید رقم: ۲۵۷)

ترجمہ:" حضرت علقمہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی  اللہ عنہ سے نقل فرماتے ہیں کہ آگاہ ہوجاؤ! میں تمہیں حضور صلی  اللہ علیہ وسلم کی نمازپڑھ کر دکھاتا ہوں، یہ کہہ کر نماز پڑھی تو اپنے دونوں ہاتھوں کو صرف ایک مرتبہ اٹھایا پھر نہیں اٹھایا۔"

اس حدیث کو امام ترمذی نے حسن کہا ہے، اور صحابہ تابعین تبع تابعین اور بے شمار محدثین اور علماء نے اس حدیث شریف کو اختیار فرمایا، اور یہی امام سفیان ثوری اور اہلِ کوفہ نے کہا  ہے۔

"قال أبو عیسیٰ: حدیث ابن مسعود حدیث حسن، وبه یقول غیر واحد من أهل العلم من أصحاب النبي والتابعین، وهو قول سفیان وأهل الکوفة".

( جامع الترمذي  ۱/ ۵۹، )

7۔۔ "عن علقمة عن عبد الله بن مسعود قال: صلیت خلف النبي صلی  الله علیه وسلم، وأبي بکر وعمرفلم یرفعوا أیدیهم إلا عند افتتاح الصلاة."

(السنن الکبری للبیهقي ۲/ ۸۰، ۲/ ۷۹، نسخه جدید دارالفکر بیروت ۲/ ۳۹۳ برقم: ۲۵۸۶)    

ترجمہ:" حضرت علقمہ عبد اللہ بن مسعود رضی  اللہ عنہ سے نقل فرماتے ہیں کہ ابن مسعودؓ نے فرمایا: میں نے حضور صلی  اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اور حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ کے پیچھے نماز پڑھی ہے ان میں سے کسی نے اپنے ہاتھوں کو تکبیر تحریمہ کے علاوہ کسی اور تکبیر میں نہیں اٹھایا۔"

8۔۔   "عن إبراهيم عن الأسود قال: رأیت عمر بن الخطاب یرفع یدیه في أول تکبیرة، ثم لایعود، قال: ورأیت إبراهيم والشعبی یفعلان ذلك".

 (طحاوي شریف ۱/ ۱۳۳، جدید ۱/ ۲۹۴ برقم: ۱۳۲۹)

ترجمہ:" امام نخعیؒ، حضرت اسود بن یزیدؒ سے نقل فرماتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطابؓ کو دیکھا کہ وہ نماز میں صرف شروع کی تکبیر میں ہاتھ اٹھاتے تھے اس کے بعد کسی میں ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔ اور راوی کہتے ہیں کہ میں نے ابراہیم اور عامر شعبی کو بھی ایسا ہی کیا کرتے دیکھا۔"

9۔۔  "عن عاصم بن کلیب الجرمي عن أبیه قال: رأیت علی بن أبي طالب رفع یدیه في التکبیرة الأولی من الصلاة المکتوبة ولم یرفعهما فیما سوی ذلك".

 (مؤطا إمام محمد/ ۹۲)

ترجمہ:" عاصم بن کلیب اپنے والد کلب جرمی سے نقل فرماتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: میں نے حضرت علی رضی  اللہ عنہ کو دیکھا کہ فرض نماز میں صرف تکبیر تحریمہ میں ہاتھ اٹھاتے تھے، اور اس کے علاوہ کسی اور تکبیر میں ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔"

10۔۔  "عن مجاهد قال: صلّیت خلف ابن عمر فلم یکن یرفع یدیه إلا في التکبیرة الأولی من الصلاة، فهذا ابن عمر قد رأی النبي صلی  الله علیه وسلم یرفع، ثمَّ قد ترك هو الرفع بعد النبي صلی  الله علیه وسلم فلایکون ذلك إلا وقد ثبت عنده نسخ ما قدرأی النبي صلی  الله علیه وسلم فعله وقامت الحجة علیه بذلك". 

(طحاوي شریف  ۱/ ۱۳۳، جدید ۱/ ۲۹۲ برقم: ۱۳۲۳)

ترجمہ:" حضرت امام مجاہدؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی  اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو وہ دونوں ہاتھوں کو نماز کی صرف پہلی تکبیر میں اٹھاتے تھے، اس کے علاوہ کسی اور تکبیر میں نہیں اٹھاتے تھے، تو یہ حضرت ابن عمرؓ ہیں جنہوں نے حضور صلی  اللہ علیہ وسلم کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا اور پھر انہوں نے خود حضور صلی  اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے بعد ہاتھ اٹھانا ترک کردیا، اور ان کا ہاتھ اٹھانا ترک کرنا ہو نہیں سکتا، الاّ یہ کہ ان کے نزدیک حضور صلی  اللہ علیہ وسلم کے رفع یدین کا عمل یقینًا منسوخ ہوچکا ہے، اور ان کے نزدیک رفع یدین کے منسوخ ہونے پر حجت قائم ہوچکی ہے۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100108

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں