بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

روایت : أعمالكم عمالكم کی تحقیق


سوال

أعمالكم عمالكم.

یہ حدیث ہے یا کسی کا قول؟ اور ضعیف  ہے یا موضوع؟ 

جواب

یہ مرفوع حدیث نہیں ہے، بلکہ اس طرح کے جملےبعض صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم، اور تابعین کے کلام میں ملتے  ہیں۔ حافظ سخاوی (ت 902 ھ) " المقاصد الحسنة" میں حديث "كما تكونون يولى عليكم أو يؤمر عليكم" کے تحت فرماتے ہیں :

          وعند الطبراني معناه من طريق عمر، و كعب أحبار و الحسن البصري أنه سمع رجلا يدعو على الحجاج فقال له :لا تفعل إنما نخاف إن عزل الحجاج أو مات أن يستولي عليكم القردة و الخنازير فقد روي أن أعمالكم عمالكم وكما تكونون يولى عليكم.

(المقاصد الحسنة للسخاوي، حرف الكاف، رقم الحديث: ٨٤٥ ، ٢/ ٢٨١، جائزة دبي الدولية للقرآن الكريم ١٤٤٠)

یعنی اس حدیث کا ہم معنی کلام امام طبرانی کے ہاں حضرت عمر، کعب أحبار اور حسن بصری رحمہم اللہ تعالیٰ کی سند سے  ملتا ہے اور حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہ تب کہا تھا جب آپ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ حجاج کو بد دعا دے رہا ہے ، تو آپ نے فرمایا:  ایسا مت کرو ، یہ تمہارے ہی اعمال کا نتیجہ ہے، ہمیں ڈر ہے اگر حجاج معزول ہو گیا یا مر گیا  تو تم پر بندر اور خنزیروں کو مسلط کر دیا جائے ، کیوں کہ مروی ہے کہ أعمالكم عمالكم، وكما تكونون يولى عليكم، مطلب جيسے: اعمال ویسے امراء"۔

اسی طرح محدث عجلونی (ت 1162ھ) رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے  ہیں : 

            "وأقول: رواه الطبراني عن الحسن البصري أنه سمع رجلاً يدعو على الحجاج، فقال له : لا تفعل، إنما نخاف إن عزل الحجاج أو مات و يتولى عليكم القردة و الخنازير، فقد روي أن أعمالكم عمالكم، وكما تكونوا يولى عليكم". (كشف الخفاء ومزيل الإلباس للعجلوني، باب الهمزة مع العين، ١/ ١٤٧، مؤسسة مناهل العرفان)

        اور یہی کلام امام مناوی رحمہ اللہ  (ت ١٠٣١ھ) نے  فیض القدیر میں اور ملا علی قاری رحمہ اللہ ( ت 1014ھ) نے  مرقاۃ  المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح  میں ذکر کیا ہے، ملاحظہ فرمائیے: (فيض القدير شرح جامع الصغير للمناوي، تحت حرف الكاف في شرح حديث: كما تكونوا يولى عليكم، ٦/ ٣١٧، دار الحديث القاهرة، ١٤٣١- المرقاة شرح المشكاة لعلي القاري ، كتاب الإمارة والقضاء، الفصل الثالث، في شرح حديث: كما تكونون كذلك يؤمر عليكم، ٧ / ٢٢٨، المكتبه الإمدادية، ملتان)

حافظ سخاوی اور محدث عجلونی رحمہما اللہ تعالیٰ کے کلام میں اگرچہ  یہ صراحت نہیں کہ یہ ان حضرات کا اپنا کلام ہے ، یا وہ حضور صلی اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں، یا پھر کوئی اسرائیلی روایت ہے، البتہ اتنا ضرور ہے کہ یہ کلام اور اس طرح کا مفہوم قرن اول میں ہی مشہور تھا، خلاصہ یہ ہے کہ اگرچہ یہ بات فی نفسہ درست ہے، لیکن  جب تک کوئی معتبر سند نہ مل جائے ، اس جملے کو بطورِ حدیثِ مرفوع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب نسبت کرکے بیان کرنے میں احتیاط ضروری ہے۔

فقط  واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208201377

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں