بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی اضافی رقم کا حکم


سوال

میں ایک نیم سرکاری ادارے سے ریٹائرڈ ہوا ہوں، سروس کے دوران ہماری تنخواہوں سےہر مہینے کچھ رقم کٹتی تھی ،جو ہماری رضامندی سے، زبردستی نہیں ریٹائرمنٹ پر ہمیں جو رقم ملتی ہے، اس میں ایک رقم کا حصہ وہ ہوتا ہے جو ہماری تنخواہوں سے دوسرا حصّہ منافع کا ہوتا ہے دوسرے الفاظ میں اسے سود کہہ سکتے ہیں، میرے کچھ دوستوں نے کچھ مدارس جس میں وہ کہتےہیں کہ ہم بنوری ٹاؤن میں جاکر بھی پوچھا انھوں نے جائز قرار دیا ہے واللہ اعلم ، میرا سوال یہ ہے کہ جو رقم تنخواہوں سے کٹتی ہے وہ ہماری رضامندی سے کٹتی تھی زبردستی نہیں تو کیا منافع کے نام والی رقم جائز ہے یا سود کے زمرے میں آتی ہے ، برائے مہربانی راہ نمائی فرمائیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں ملازم کی تنخواہ سے جو رقم کاٹی جاتی ہے اور  ادارہ بھی ابتدا میں اس میں اپنی طرف سے کچھ رقم ملاتا ہے، پھر ان دونوں رقموں پر کچھ اضافی رقم ریٹائرمنٹ کے بعد  ملتی ہے ،اس کے جائز ناجائز ہونے کا مدار اس کی جبری واختیاری کٹوتی پر ہے ،اگر یہ کٹوتی  ملازم کے اختیار میں نہ ہو، ادارہ  جبرا ًیہ کٹوتی  کرتا ہو  تو  ملنے والی اضافی رقم لینا جائز  ہوگا، اور یہ سود نہیں،  البتہ اگر کوئی احتیاطًا نہ لے  تو یہ بہتر ہے۔  اور  اگر  یہ کٹوتی ملازم کے اختیار ورضامندی سے ہو، تو  ملازم کے لیے صرف کٹوتی شدہ رقم اور اتنی رقم جو ادارے نے ابتدا میں اپنی طرف سے ملائی تھی وہ لینا جائز ہوگا، اس پر    ملنے والا  منافع لینا جائز نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے :

"مطلب: كل قرض جر نفعًا حرام

(قوله:كل قرض جر نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا، كما علم مما نقله عن البحر".

(باب المرابحۃ والتولیۃ،باب فی القرض ،ج:5،ص:166،سعید)

جواہر الفقہ  مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ میں ہے :

"جبری پراویڈنٹ فنڈ پہ سود کے نام پر جو رقم ملتی ہے  ،وہ شرعًا سود نہیں ، بلکہ اجرت(تنخواہ) ہی کا ایک حصہ ہے،  اس کا لینا اور اپنے استعمال میں لانا جائز  ہے  ، البتہ پراویڈنٹ فنڈ میں رقم اپنے اختیار سے کٹوائی جائے تو اس میں تشبہ بالربوا بھی ہے اور ذریعہ  سود بنا لینے کا خطرہ بھی ہے ، اس لیے اس سے اجتناب کیا جائے".

(ج:3،ص:257،ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410100771

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں