بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رشوت کی رقم سے تعمیر کیے گئے مکان کا حکم


سوال

میں پولیس میں ملازمت کرتا رہا ہوں، اور اس دوران غفلت اور بے خدا خوفی میں تقریباً چار پانچ لاکھ کرپشن کے ذریعے حاصل کیے، اور ان کو اپنی وراثت میں ملی زمین پر مکان بنانے میں استعمال کر چکا ہوں، اب جب کہ آخرت کا خوف دل میں پیدا ہوا تو میں نے معافی مانگی ہے، اور اب میں کرپشن کیے پیسے کو واپس کرنا چاہتا ہوں، اس کو واپس کرنے کی کیا صورت ہو گی؟

جواب

واضح رہے مال حرام (مثلاً رشوت وغیرہ کے پیسوں) کا حکم یہ ہے کہ جب اس کا مالک معلوم ہو تو وہ  رقم اس کے مالک کو دینا ضروری ہے، اگر مالک انتقال کر گیا ہے تو اس کے ورثہ کو دینا ضروری ہے، اگر مذکورہ رقم کا مالک ہی معلوم نہیں ہے تو بلا نیتِ ثواب مذکورہ رقم غرباء پر تقسیم کرنا ضروری ہے۔

بصورتِ مسئولہ جس قدر کرپشن کی رقم (یعنی رشوت وغیرہ کی رقم)  گھر کے بنانے میں خرچ ہوئی ہے، اسی کے بقدر رقم مالک یا اس کے ورثاء کو واپس لوٹانا ضروری ہے، اگر مالک کو لوٹانا ممکن نہ ہو (یعنی مذکورہ رقم کے مالک یا مالک کے ورثاء معلوم ہی نہیں ہیں)، تو پھر مالک کی طرف سے اتنی  ہی رقم کا غریبوں پر ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کرنا  ضروری ہے، چوں کہ اس معاملہ کا تعلق حقوق العباد سے ہے اس لیے محض اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنا کافی نہیں ہوگا، اگر رشوت کی رقم مالک کو نہیں لوٹائی گئی یا مالک نہ ہونے کی صورت میں اُس رقم کا غریبوں پر صدقہ نہیں کیا گیا، تو رشوت لینے والا شخص عند اللہ بری الذمہ نہیں ہوگا؛ بلکہ وہ قیامت کے دن ماخوذ ہوگا۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"وعلى هذا قالوا: لو مات الرجل وكسبه من بيع الباذق أو الظلم أو أخذ الرشوة يتورع الورثة، ولايأخذون منه شيئًا وهو أولى بهم و يردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها؛ لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه".

(كتاب الحظر و الإباحة، فصل في البيع، ج:6، ص:385، ط:ايج ايم سعيد)

معارف السنن میں ہے:

"قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقهائنا کالهدایة و غیرها: أن من ملك بملك خبیث، و لم یمكنه الرد إلى المالك، فسبیله التصدقُ علی الفقراء ... قال: و الظاهر أنّ المتصدق بمثله ینبغي أن ینوي به فراغ ذمته، ولایرجو به المثوبة."

(أبواب الطهارة، باب ما جاء: لاتقبل صلاة بغیر طهور، ج:1، ص:34، ط: المکتبة الأشرفیة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"حيلة يحتال بها الرجل ليتخلص بها عن حرام أو ليتوصل بها إلى حلال فهي حسنة."

(کتاب الحیل، ج:6، ص:390، ط: مکتبه رشیدیه)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144204200979

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں