کرایہ پر مکان دیا ہوا ہے، کُل آمدنی کا وہی ذریعہ ہے، گھر کا خرچ اسی سے چلتا ہے، تو کیا بیوہ کو اس کی زکوٰۃ دینا ہوگی؟ جب کہ بچے نابالغ ہیں۔
صورتِ مسئولہ میں جو مکان مذکورہ بیوہ نے کرایہ پر دیا ہوا ہے اس مکان کی مالیت پر زکوۃ لازم نہیں ہو گی، تاہم اگر اس کا کرایہ جمع ہوتا ہو اور وہ کرایہ تنہا یا دیگر اموالِ نصاب کے ساتھ مل کر نصاب کی مقدار کو پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائے تو اس کی زکوۃ کی ادائیگی لازم ہو گی۔
نصاب کی مقدار سے مراد یہ ہے کہ اس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کو پہنچ جائے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ولو اشترى قدورا من صفر يمسكها ويؤاجرها لا تجب فيها الزكاة."
(كتاب الزكوة ، مسائل شتى في الزكوة ، جلد : 1 ، صفحه : 180 ، طبع : دار الفكر)
الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:
"اتجه رأس المال في الوقت الحاضر لتشغيله في نواحٍ من الاستثمارات غير الأرض والتجارة، وذلك عن طريق إقامة المباني أو العمارات بقصد الكراء، والمصانع المعدة للإنتاج، ووسائل النقل من طائرات وبواخر (سفن) وسيارات، ومزارع الأبقار والدواجن وتشترك كلها في صفة واحدة هي أنها لا تجب الزكاة في عينها وإنما في ريعها وغلتها أو أرباحها."
(القسم الاول : العبادات ، الباب الرابع : الزکوۃ ، الفصل الاول ، المبحث السادس ، المطلب الاول ، جلد : 3 ، صفحه : 1947 ، دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604100372
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن