بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رینٹ الاؤنس کو دیگر گھریلو اخراجات میں استعمال کرنا


سوال

"میں گریڈ 17 میں سرکاری ملازم ہوں ۔ مجھے ادارے کی طرف سے کرایے کے مکان کی ہائرنگ ملنی ہے۔ میری ہائرنگ گریڈ کے مطابق 41700 ہے ۔ اگر مجھے کم قیمت میں مکان مل جاۓ تو کیا اوپر والے پیسے لینا میرے لیے جائز ہوں گے؟   اور ہائرنگ کا چیک مالک مکان کے نام پر آنا اور مکان کا کرایہ 20000 ہونا ہے ۔ " لیکن مکان میں گیس کنکشن وغیرہ نہیں ہے،  جس کی وجہ سے ہمیں گیس سلنڈر وغیرہ استعمال کرنا پڑے گا ۔ کیا اضافی رقم جو کرایہ سے فالتو ہمیں ملے گی وہ ہم باقی چیزوں کے اخراجات میں استعمال کر سکتے ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں ادارہ کی طرف سے  مذکورہ رقم   گھر کے کرایہ کے ساتھ مشروط   ہے،  اس لیے اس رقم کو کرایہ کے علاوہ  دیگر گھریلو اخراجات میں ادارہ کی اجازت کے بغیر استعمال کرنا درست نہیں، لہذا بہتر صورت یہ ہے کہ کرایہ پر  ایسا گھر لے لیا جائے جس میں تمام سہولیات موجود ہوں۔ 

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"و عن أبي حرة الرقاشي، عن عمه - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "«ألا لاتظلموا، ألا لايحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه». رواه البيهقي في "شعب الإيمان"، و الدارقطني في "المجتبى."

(" ألا ") للتنبيه أيضا وكرره تنبيها على أن كلا من الجملتين حكم مستقل ينبغي أن ينبه عليه، و أن الثاني حيث يتعلق به حق العباد أحق بالإشارة إليه، والتخصيص لديه ("لايحل مال امرئ ") أي: مسلم أو ذمي (" إلا بطيب نفس ") أي: بأمر أو رضا منه. رواه البيهقي في " شعب الإيمان "، والدارقطني في " المجتبى." 

(باب الغصب والعاریة، ج:5، ص:1974، ط:دارالفکر)

دررالحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے :

"‌كل ‌يتصرف ‌في ‌ملكه كيفما شاء. لكن إذا تعلق حق الغير به فيمنع المالك من تصرفه على وجه الاستقلال." 

( الكتاب العاشر الشركات ، الباب الثالث ، الفصل الأول في بيان بعض القواعد المتعلقة بأحكام الأملاك ، ج:3 ، ص:201 ، ط:دار الجيل )

فتاوی شامی میں ہے :

"‌لا ‌يجوز ‌التصرف ‌في ‌مال ‌غيره بلا إذنه."

( كتاب الغصب ، ص: 617 ، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101540

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں