بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رینٹ اے کار کا حکم


سوال

کیا( رینٹ   اے  کار ) کا کاروبار جائز ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ رینٹ پر گاڑی دینا یہ ایک اجارہ اور کرایہ داری کا معاملہ اور نفس اجارہ میں شرعاً کوئی  خرابی نہیں، البتہ  بعض اوقات اجارہ کا معاملہ کرنے میں ایسےقواعد و ضوابط طے کر لیے جاتے ہیں جو شرعاً درست نہیں ہوتے اور اس کی وجہ سے معاملہ فاسد ہوجاتاہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں گاڑی کرایہ پر دینا تو جائز ہے ،باقی  سائل کس طریقے سے کام کرنا چاہتاہے اس کی مکمل تفصیل بتاکر شرعی حکم معلوم کرلے۔

ہدایہ میں ہے:

"‌الإجارة: ‌عقد ‌على ‌المنافع ‌بعوض" لأن الإجارة في اللغة بيع المنافع، والقياس يأبى جوازه؛ لأن المعقود عليه المنفعة وهي معدومة، وإضافة التمليك إلى ما سيوجد لا يصح إلا أنا جوزناه لحاجة الناس إليه، وقد شهدت بصحتها الآثار وهو قوله عليه الصلاة والسلام: "أعطوا الأجير أجره قبل أن يجف عرقه" وقوله عليه الصلاة والسلام: "من استأجر أجيرا فليعلمه أجره" وتنعقد ساعة فساعة على حسب حدوث المنفعة."

(کتاب الإجارۃ،ج:3، ص:230، ط:دار احياء التراث العربي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله بما يرفع الجهالة) فلا بد أن يعين الثوب الذي يصبغ ولون الصبغ، أحمر أو نحوه وقدر الصبغ إذا كان يختلف.

وفي المحيط: لو استأجره لقصر عشرة أثواب ولم يرها فالإجارة فاسدة؛ لأنه يختلف بغلظه ورقته ذكره في البحر (قوله بيان الوقت أو الموضع) قال في البزازية: ‌استأجر ‌دابة ليشيع عليها أو يستقبل الحاج لا يصح بلا ذكر وقت أو موضع.

وفيها: استأجرها من الكوفة إلى الحيرة يبلغ عليها إلى منزله ويركبها من منزله وكذا في حمل المتاع."

(کتاب الاجارۃ، شروط الاجارۃ، ج:6، ص:10، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101628

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں