بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ریکی کا سیکھنا


سوال

کیا ریکی سیکھنا جائز ہے؟

 

جواب

واضح رہے کہ روحانی طریقے سے کیے جانے  والے علاج کے لیے ضروری ہے کہ جو الفاظ استعمال کیے جائیں ان کا معنی اور مفہوم معلوم ہو اور شرکیہ نہ ہو، اسی وجہ سے ایسے تعویذات اور دم وغیرہ جن میں شرکیہ الفاظ استعمال کیے جائیں یا ایسے کلمات کہے جائیں جن کا معنی، مطلوب اور مفہوم واضح اور متعین نہ ہو، ان کے ذریعے بھی علاج کرنے کی اجازت نہیں؛ لہٰذا ریکی کے بارے میں جو معلومات حاصل ہوئی ہیں، اس کے مطابق ریکی غیر مسلموں کی جانب سے ایجاد کردہ ایک طریقہ علاج ہے جس میں معالج ظاہری طور پر یا دور سے خیال و تصور میں اپنا ہاتھ مریض کے جسم پر رکھتا ہے اور ریکی کے مخصوص الفاظ (سمبل اور کوڈز) دہراتے ہوئے مریض کے اندر انرجی منتقل کرتا ہے اور مریض اپنے آپ کو شفایاب محسوس کرتا ہے۔ اس طریقہ علاج میں چند سمبل اور کوڈز بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ مثلاً:

  • چو، کو، رے (cho.ku.rei) اس کا مطلب ہے: "توانائی یہاں رکھ دو" یا  پھر"خدا یہاں ہے"۔
  • سے،ہی،کی  (sei.hei.ki) اس کا مطلب ہے: "کائنات کی  کنجی" یا  " آدمی اور خدا ایک ہو رہے ہیں"۔
  • ہون۔شا۔زی۔شو۔نین (hon.sha.ze.sho,nen ) اس کا مطلب ہے: "میرا اندر کا بدھا (بدھ مت خدا) پہنچتا ہے تمہارے اندر کے بدھا تک؛ تاکہ اس کے نور اور  ادراک کو بڑھائے"۔

(العیاذ باللہ۔ نقل کفر کفر نہ باشد)۔

ان میں بعض کوڈ شرکیہ مفہوم رکھتے ہیں، جیسا کہ کوڈ نمبر 2 اور کوڈ نمبر 3 بالکل غلط ہے؛ اس لیے اس جیسے الفاظ سے علاج کرنا جائز نہیں ہے، باقی وہ الفاظ جن کا معنی شرکیہ نہیں اور نصوصِ شرعیہ سے متصادم بھی نہ ہوں، تو ان الفاظ سے علاج کرنا جائز ہے، البتہ ایسے الفاظ جن کا معنی اور مفہوم واضح نہ ہو ان الفاظ سے علاج کرنا مکروہ ہے، اس سے اجتناب ہی کرنا چاہیے؛ تاکہ شرک وغیرہ میں داخل نہ ہوں۔ جو تفصیل اوپر ریکی کے ذریعے  علاج کرنے سے متعلق بیان کی گئی، ریکی سیکھنے میں بھی یہی تفصیل ہے۔

فتح الباري لابن حجر (10 / 195):

"وَقَدْ أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ عَلَى جَوَازِ الرُّقَى عِنْدَ اجْتِمَاعِ ثَلَاثَةِ شُرُوطٍ أَنْ يَكُونَ بِكَلَامِ اللَّهِ تَعَالَى أَوْ بِأَسْمَائِهِ وَصِفَاتِهِ وَبِاللِّسَانِ الْعَرَبِيِّ أَوْ بِمَا يُعْرَفُ مَعْنَاهُ مِنْ غَيْرِهِ وَأَنْ يُعْتَقَدَ أَنَّ الرُّقْيَةَ لَا تُؤَثِّرُ بِذَاتِهَا بَلْ بِذَاتِ اللَّهِ تَعَالَى وَاخْتَلَفُوا فِي كَوْنِهَا شَرْطًا وَالرَّاجِحُ أَنَّهُ لَا بُدَّ مِنَ اعْتِبَارِ الشُّرُوطِ الْمَذْكُورَةِ فَفِي صَحِيحِ مُسْلِمٍ مِنْ حَدِيثِ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كُنَّا نَرْقِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ تَرَى فِي ذَلِكَ فَقَالَ اعْرِضُوا عَلَيَّ رُقَاكُمْ لَا بَأْسَ بِالرُّقَى مَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ شِرْكٌ وَلَهُ مِنْ حَدِيثِ جَابِرٍ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الرُّقَى فَجَاءَ آلُ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ كَانَتْ عِنْدَنَا رُقْيَةٌ نَرْقِي بِهَا مِنَ الْعَقْرَبِ، قَالَ: فَعَرَضُوا عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَا أَرَى بَأْسًا، مَنِ اسْتَطَاعَ أَنْ يَنْفَعَ أَخَاهُ فَلْيَنْفَعْهُ. وَقَدْ تَمَسَّكَ قَوْمٌ بِهَذَا الْعُمُومِ فَأَجَازُوا كُلَّ رُقْيَةٍ جُرِّبَتْ مَنْفَعَتُهَا وَلَوْ لَمْ يُعْقَلْ مَعْنَاهَا، لَكِنْ دَلَّ حَدِيثُ عَوْفٍ أَنَّهُ مَهْمَا كَانَ مِنَ الرُّقَى يُؤَدِّي إِلَى الشِّرْكِ يُمْنَعُ، وَمَا لَايُعْقَلُ مَعْنَاهُ لَايُؤْمَنُ أَنْ يُؤَدِّيَ إِلَى الشِّرْكِ فَيَمْتَنِعُ احْتِيَاطًا، وَالشَّرْطُ الْآخِرُ لَا بُدَّ مِنْهُ".

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144111200492

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں