بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رہن (گروی) زمین میں کاشت کرنا / قرض نہ ملنے کی صورت میں گروی زمین فروخت کرنا


سوال

 میں نے ایک شخص کو کچھ رقم قرض دی،  اس نے اس کے بدلے میں میرے پاس زمین گروی رکھی ہے، میرا اور اس کا ایک سال کا معاہدہ تھا، اس سے میں فائدہ اٹھاتا رہا،  بعد میں مجھے پتہ چلا کہ یہ تو جائز نہیں ہے،  میں نے پوری کوشش کی کہ وہ مجھے میرے پیسے واپس کر دے،  مگر آج پانچ  سال گزر گئے ہیں،  وہ مجھے پیسے واپس نہیں دے رہا ہے،  اب اگر میں اس کو زمین واپس کرتا ہوں تو میرے پیسے ڈوبتے ہیں اور نہ کروں تو اس سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں، آپ اس مسئلہ میں میری رہنمائی فرمائیں، ( اب کھیت میں سارا خرچہ میں خود اٹھاتا ہوں کنواں ہے، اس میں سے پانی جنریٹر سے نکالتا ہوں، اس سال میرا 7000 خرچ ہوا اور صرف 3000 کی گندم ہوئی ہے، یعنی کبھی نقصان بھی ہوتا اور فائدہ بھی ) 

جواب

’’رہن‘‘  کا شرعی حکم یہ ہے کہ ضرورت کی وجہ سے کسی قرض کے مقابلے میں ’’رہن‘‘ لینا اور دینا درست ہے، اور  رہن میں کوئی بھی قیمتی چیز رکھی جاسکتی ہے، چناں چہ زمین کو بھی رہن کے طور پر رکھنا درست ہے، لیکن رہن میں رکھی جانے والی چیز  کی حیثیت محض ضمانت کی ہوتی ہے، اور رہن میں رکھے جانے کے بعد بھی رہن (گروی) رکھی ہوئی چیز  اس کے اصل مالک کی ہی ملک رہتی ہے؛ البتہ قبضہ مرتہن (جس کے پاس گروی رکھی ہوئی ہے) کا ہوتا ہے۔ 

لہذا صورتِ مسئولہ میں  آپ کے لیے قرض کے بدلے رہن پر لی ہوئی  زمین میں کاشت کرکے اس سے نفع اٹھانا جائز نہیں ہے۔ قرض واپس کرنے پر زمین واپس کرنا لازم ہے، رہن رکھی ہوئی چیز یا اس سے حاصل شدہ اضافے سے فائدہ اٹھانا قرض دے کر نفع اٹھانے کی وجہ سے سود کے حکم میں ہے، لیکن چوں کہ مالک کی اجازت سے کاشت کی تھی، اس لیے زمین کے نقصان کا ضمان لازم نہیں آئے گا، لیکن جو فائدہ ہوا ہے اس سے فائدہ حاصل کرنا بھی جائز نہیں ہے؛  اس لیے یہ سود کے حکم میں ہے۔

البتہ اگر قرض کی مدت مکمل ہونے کے بعد قرض لینے والا اپنی رقم واپس نہ کرے تو  قرض کی مدّت پوری ہونے پر اولًا آپ  مالک سے قرض کا مطالبہ کریں، اگر قرض وصول نہ ہو تو مالک کی اجازت سے یا عدالتی  حکم سے   زمین کو فروخت کرکے اپنا قرض وصول کرلیں تو  شرعًا اس کی اجازت ہوگی، اور اس کے بعد اگر کچھ رقم بچ جائے تو  زائد رقم اس کو واپس کرنا ضروری ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے :

"اَلرَهنُ هو حَبسُ شيءٍ مالیٍ بِحَقٍ یُمکِنُ اِستِیفائُه مِنه کَالْدَّینِ". (درمختار ج۵/ ص۳۰)

وفیہ ایضا:

"(لَا انْتِفَاعَ بِهِ مُطْلَقًا) لَا بِاسْتِخْدَامٍ، وَلَا سُكْنَى وَلَا لُبْسٍ وَلَا إجَارَةٍ وَلَا إعَارَةٍ، سَوَاءٌ كَانَ مِنْ مُرْتَهِنٍ أَوْ رَاهِنٍ (إلَّا بِإِذْنِ) كُلٍّ لِلْآخَرِ، وَقِيلَ لَا يَحِلُّ لِلْمُرْتَهِنِ لِأَنَّهُ رِبًا، وَقِيلَ: إنْ شَرَطَهُ كَانَ رِبًا وَإِلَّا لَا. وَفِي الْأَشْبَاهِ وَالْجَوَاهِرِ: أَبَاحَ الرَّاهِنُ لِلْمُرْتَهِنِ أَكْلَ الثِّمَارِ أَوْ سُكْنَى الدَّارِ أَوْ لَبَنِ الشَّاةِ الْمَرْهُونَةِ فَأَكَلَهَا لَمْ يَضْمَنْ وَلَهُ مَنْعُهُ، ثُمَّ أَفَادَ فِي الْأَشْبَاهِ: أَنَّهُ يُكْرَهُ لِلْمُرْتَهِنِ الِانْتِفَاعُ بِذَلِكَ".

"(قَوْلُهُ: إلَّا بِإِذْنٍ) فَإِذَا انْتَفَعَ الْمُرْتَهِنُ بِإِذْنِ الرَّاهِنِ وَهَلَكَ الرَّهْنُ حَالَةَ اسْتِعْمَالِهِ يَهْلِكُ أَمَانَةً بِلَا خِلَافٍ، أَمَّا قَبْلَ الِاسْتِعْمَالِ أَوْ بَعْدَهُ يَهْلِكُ بِالدَّيْنِ، وَلَوْ كَانَ أَمَةً لَايَحِلُّ وَطْؤُهَا؛ لِأَنَّ الْفَرْجَ أَشَدُّ حُرْمَةً، لَكِنْ لَايُحَدُّ بَلْ يَجِبُ الْعُقْرُ عِنْدَنَا، مِعْرَاجٌ (قَوْلُهُ: وَقِيلَ: لَايَحِلُّ لِلْمُرْتَهِنِ) قَالَ فِي الْمِنَحِ: وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْلَمَ السَّمَرْقَنْدِيِّ وَكَانَ مِنْ كِبَارِ عُلَمَاءِ سَمَرْقَنْدَ أَنَّهُ لَايَحِلُّ لَهُ أَنْ يَنْتَفِعَ بِشَيْءٍ مِنْهُ بِوَجْهٍ مِنْ الْوُجُوهِ وَإِنْ أَذِنَ لَهُ الرَّاهِنُ؛ لِأَنَّهُ أَذِنَ لَهُ فِي الرِّبَا؛ لِأَنَّهُ يَسْتَوْفِي دَيْنَهُ كَامِلًا فَتَبْقَى لَهُ الْمَنْفَعَةُ فَضْلًا فَيَكُونُ رِبًا، وَهَذَا أَمْرٌ عَظِيمٌ.

قُلْت: وَهَذَا مُخَالِفٌ لِعَامَّةِ الْمُعْتَبَرَاتِ مِنْ أَنَّهُ يَحِلُّ بِالْإِذْنِ إلَّا أَنْ يُحْمَلَ عَلَى الدِّيَانَةِ، وَمَا فِي الْمُعْتَبَرَاتِ عَلَى الْحُكْمِ ثُمَّ رَأَيْتُ فِي جَوَاهِرِ الْفَتَاوَى: إذَا كَانَ مَشْرُوطًا صَارَ قَرْضًا فِيهِ مَنْفَعَةٌ وَهُوَ رِبًا وَإِلَّا فَلَا بَأْسَ اهـ مَا فِي الْمِنَحِ مُلَخَّصًا وَأَقَرَّهُ ابْنُهُ الشَّيْخُ صَالِحٌ. وَتَعَقَّبَهُ الْحَمَوِيُّ بِأَنَّ مَا كَانَ رِبًا لَايَظْهَرُ فِيهِ فَرْقٌ بَيْنَ الدِّيَانَةِ وَالْقَضَاءِ.

عَلَى أَنَّهُ لَا حَاجَةَ إلَى التَّوْفِيقِ بَعْدُ؛ لِأَنَّ الْفَتْوَى عَلَى مَا تَقَدَّمَ: أَيْ مِنْ أَنَّهُ يُبَاحُ.

أَقُولُ: مَا فِي الْجَوَاهِرِ يَصْلُحُ لِلتَّوْفِيقِ وَهُوَ وَجِيهٌ، وَذَكَرُوا نَظِيرَهُ فِيمَا لَوْ أَهْدَى الْمُسْتَقْرِضُ لِلْمُقْرِضِ، إنْ كَانَتْ بِشَرْطٍ كُرِهَ وَإِلَّا فَلَا، وَمَا نَقَلَهُ الشَّارِحُ عَنْ الْجَوَاهِرِ أَيْضًا مِنْ قَوْلِهِ: "لَايَضْمَنُ" يُفِيدُ أَنَّهُ لَيْسَ بِرِبًا، لِأَنَّ الرِّبَا مَضْمُونٌ، فَيُحْمَلُ عَلَى غَيْرِ الْمَشْرُوطِ، وَمَا فِي الْأَشْبَاهِ مِنْ الْكَرَاهَةِ عَلَى الْمَشْرُوطِ، وَيُؤَيِّدُهُ قَوْلُ الشَّارِحِ الْآتِي آخِرَ الرَّهْنِ إنَّ التَّعْلِيلَ بِأَنَّهُ رِبًا يُفِيدُ أَنَّ الْكَرَاهَةَ تَحْرِيمِيَّةٌ، فَتَأَمَّلْ. وَإِذَا كَانَ مَشْرُوطًا ضَمِنَ كَمَا أَفْتَى بِهِ فِي الْخَيْرِيَّةِ فِيمَنْ رَهَنَ شَجَرَ زَيْتُونٍ عَلَى أَنْ يَأْكُلَ الْمُرْتَهِنُ ثَمَرَتَهُ نَظِيرَ صَبْرِهِ بِالدَّيْنِ.

قَالَ ط: قُلْتُ وَالْغَالِبُ مِنْ أَحْوَالِ النَّاسِ أَنَّهُمْ إنَّمَا يُرِيدُونَ عِنْدَ الدَّفْعِ الِانْتِفَاعَ، وَلَوْلَاهُ لَمَا أَعْطَاهُ الدَّرَاهِمَ وَهَذَا بِمَنْزِلَةِ الشَّرْطِ؛ لِأَنَّ الْمَعْرُوفَ كَالْمَشْرُوطِ وَهُوَ مِمَّا يُعَيِّنُ الْمَنْعَ، وَاَللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ اهـ".

( كتاب الرهن، ٦ / ٤٨٢ - ٤٨٣)

وفیہ ایضا:

وفيها: زرع المرتهن أرض الرهن، إن أبيح له الانتفاع لا يجب شيء، وإن لم يبح لزمه نقصان الأرض وضمان الماء لو من قناة مملوكة فليحفظ.

(قوله: كما مر) أي قريبا في قوله حتى لو أراد منعه كان له ذلك (قوله: لو من قناة مملوكة) هذا خلاف المفتى به من أنه لا يضمن إلا ما ملكه بالإحراز كما مر في كتاب الشرب، وماء القناة غير محرز. (6 / 523)۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109202710

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں